Maktaba Wahhabi

101 - 111
(ص۲۲۰) اس بابت عمار خان صاحب کی تحریر میں تضاد بھی ہے۔چنانچہ توہین رسالت کے بارے میں پہلے انسانی جذبات و احساسات کو فیصلہ کن قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ''جدید جمہوری اُصولوں کی رو سے کسی بھی مملکت کی حدود میں بسنے والے ہر مذہبی گروہ کو اپنے عقیدہ و مذہب کے تحفظ کا حق اور اس کی ضمانت حاصل ہے ... اور راسخ العقیدہ اہل مذہب اپنے مذہبی شعائر، شخصیات اور جذبات کو جان و مال اور آبرو سے زیادہ محترم سمجھتے ہیں اور ان میں سے کسی بھی چیز کی توہین لازماً مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور نتیجتاً اشتعال انگیزی کا سبب بنتی ہے۔چنانچہ انسانی و مذہبی حقوق کی اس خلاف ورزی کو جرم قرار دے کر اس کے سد باب کے لیے سزا مقرر کرنا ہر لحاظ سے جمہوری اُصولوں اور تصورات کے مطابق ہے۔'' (ص۲۳۰،۲۳۱) (ii) پھر لکھتے ہیں کہ انسانی جذبات و احساسات توہین رسالت میں فیصلہ کن نہیں ہیں: ''بنیادی نکتہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ شرعی احکام اور خاص طور پر مختلف جرائم پر سزاؤں کی تعیین میں اصل اور اساس کی حیثیت انسانی احساسات و جذبات کو نہیں بلکہ اس چیز کو حاصل ہے کہ اس باب میں شارع کا منشا کیا ہے اور وہ کس جرم پر کس نوعیت کی سزا دلوانا چاہتا ہے۔شرعی احکام میں انسانی جذبات اور احساسات کو یقیناً ملحوظ رکھا گیا اور ان کی رعایت کی گئی ہے،لیکن کسی چیز کا فیصلہ کرنے میں اُنہیں فیصلہ کن اور حتمی معیار تسلیم نہیں کیا گیا۔'' (iii) اس کے بعد جرم کی سنگینی ذہنوں سے نکالنے کے لیے لکھتے ہیں: ''پیغمبر کی شان میں گستاخی کا جرم اگر اپنی نوعیت اور اثرات کے لحاظ سے اس درجے کو پہنچ جائے کہ اس کی اذیت پورے مسلمان معاشرے کو محسوس ہونے لگے (یعنی پورے ملک یا پوری مسلم دنیا میں ہلچل مچ جائے۔ناقل) اور مجرم کسی چیز کی پروا کیے بغیر اپنی روش پر قائم رہے تو اس صورت میں یہ جرم براہِ راست آیتِ محاربہ کے تحت آ جاتا ہے (اور صرف ایسی ہی حالت میں ذمی کو سزائے موت دی جا سکتی ہے،لیکن پھر بھی ٹھہریے ... ) یہ ضروری نہیں کہ سب و شتم اور توہین و تنقیص کے
Flag Counter