جرم کو اپنی ہر صورت میں حرابہ ہی کے دائرے میں شمار کیا جائے،کیونکہ نوعیت و کیفیت اور اثرات کے لحاظ سے اس کی نسبتاً کمتر اور ہلکی صورتوں کا رونما ہونا ممکن ہے۔'' (ص۲۳۲) ''ہمارے ہاں چونکہ ایک خاص جذباتی فضا میں بہت سے حنفی اہل علم بھی فقہ حنفی کے کلاسیکی موقف کو بعض متاخرین کے فتووں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔'' (ص۲۳۷) حالانکہ متاخرین کا فتویٰ بھی فتویٰ ہی ہوتا ہے اور یہاں تو امام محمد رحمہ اللہ بھی یہی قول بیان کرتے ہیں کہ ذمی توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اس کی سزا قتل ہے۔پھرچونکہ اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ حکومت کی سستی یا مصلحت کوشی یا لا پرواہی کی وجہ سے کوئی شخص غیرت کی بنا پر توہین رسالت کے مرتکب کو خود ہی قتل کر دے تو اس کے سدِ باب کے لیے عمار خان ناصر لکھتے ہیں: ''حدود و تعزیرات کے جتنے بھی احکام ہیں، یہ افراد کے لیے نہیں ہیں... عام آدمی میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ چور کو پکڑ کر اس کا ہاتھ کاٹ دے... یہ حکومت کا کام ہے۔اسی طرح یہود و نصاریٰ اور دیگر کافروں سے لڑنا انفرادی کام نہیں ہے۔یہ اجتماعی طور پر حکومت کا کام ہے..تمہیں(صرف) زبان سے سمجھانے کا حق ہے۔''(ص: ۲۵۷) ان اقتباسات سے یہ باور کرنا مشکل نہیں کہ عمار خان صاحب نے ذمیوں کو توہین رسالت کے ارتکاب پر سزائے موت سے بچانے کے لیے ہردروازہ کھولنے کی کوشش کی ہے۔ مسجد اقصیٰ اور عمار خان کی یہود نوازی مسجد اقصیٰ اور اس سے متصل احاطہ ۴۵ ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے۔بیت المقدس کو جب مسلمانوں نے فتح کیا تو یہ احاطہ ویران اور خراب حالت میں تھا۔حضرت عمر ر نے اس احاطہ کے ایک حصّے میں مسجد بنوائی اور کچھ مزید تعمیرات بعد کے حکمرانوں نے بنوائیں۔عمار خان صاحب کے بقول مسجد اقصیٰ کے احاطہ کی تولیت کے بارے میں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جھگڑا پڑا ہوا ہے۔اس جھگڑے میں عمار خان کا موقِف یہ ہے کہ احاطہ کے ایک حصے |