Maktaba Wahhabi

103 - 111
میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد مقرر کی تھی، وہ درست ہے اور وہ مسلمانوں کا حق ہے،البتہ باقی احاطہ یہودیوں کا حق ہے کہ وہ اس میں اپنی عبادت گاہ بنائیں اور یہودیوں کا یہ حق قانون کے اعتبار سے نہیں، اسلامی اخلاقیات کے اعتبار سے ہے۔اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ باقی احاطہ پر حق نہ جتائیں اور اس کو یہودیوں کی امانت سمجھ کر ان کے حوالے کر دیں۔یہ بات عمار خان کے الفاظ میں بھی پڑھ لیجیے، لکھتے ہیں: ''جہاں تک قانونی پہلو کا تعلق ہے، اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دعواے تولیت کو ایک عملی وجہ ترجیح حاصل ہے۔اُنھوں نے یہ عبادت گاہ نہ یہودیوں سے چھینی تھی اور نہ ان کی پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کو ڈھا کر اس پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی تھی۔نیز وہ بحالتِ موجودہ اس کی تولیت کے ذمہ دار ہیں اور یہ ذمہ داری وہ گذشتہ تیرہ صدیوں سے...تسلسل کے ساتھ انجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اسکی تولیت کا حق دار مسلمانوں ہی کو تسلیم کیا گیا ہے۔'' (ص۲۸۶) دوسری جگہ اس کے بالکل اُلٹ لکھتے ہیں اور یہودیوں کے لیے تولیت کا حق بتاتے ہیں۔ملاحظہ ہو: ''مسلمانوں نے یہود کی غیر موجودگی میں (مسجد اقصیٰ کے احاطے کی تولیت کی ذمہ داری) محض امانتاً اُٹھائی تھی۔'' کسی کو خیال ہو کہ اس جھگڑے میں عمار خان کو منصف بننے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب عمار خان خود یتے ہیں: ''ہمارا احساس یہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ کی جانب سے اجتماعی طور پر اختیار کردہ اس رویے کی تشکیل میں بنیادی عنصر کی حیثیت مسئلے کی جذباتی نوعیت اور عرب اسرائیل سیاسی کشاکش کو حاصل ہے اور بعض نہایت اہم شرعی اخلاقی اور تاریخی پہلوؤں کے نظر انداز ہو جانے کی وجہ سے اس معاملے میں توازن و اعتدال کی حدود ٹھیک ٹھیک ملحوظ نہیں رکھی جا سکیں۔چنانچہ صورتحال اس بات کی مقتضی ہے کہ تعصّبات و جذبات سے بالاتر ہو کر قران و سنت کی روشنی میں بے لاگ طریقے سے اس کا جائزہ لیا جائے۔
Flag Counter