کیا ہے : ﴿وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسٰنٍ رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ﴾[1] ''اور وہ لوگ جنھوں نے نیک اعمال امیں انصار اور مہاجرین کرام کی پیروی کی اور اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔'' ۴۔آٹھویں صدی ہجری کے مجدد امام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم المعروف امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ طائفہ منصورہ کے منہج کی صداقت پر لاثانی استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''اہل بدعت میں سے ہر فرقہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ شریعت ِاسلام کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کو لے کر اُٹھے تھے وہ اسی کا اعتقاد رکھتا ہے اور اسی کو اختیار کیے ہوئے ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اہل حدیث و آثار کے علاوہ دوسرے فرقوں کے حق پر ہونے اور ان کے اعتقاد کے صحیح ہونے کا انکار کر دیا ہے۔اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اہل حدیث کے متأخرین اپنے متقدمین سے ہر صدی میں تسلسل کے ساتھ اپنا دین حاصل کرتے ہوئے تابعین تک پہنچ گئے اور تابعین نے اس دین کو صحابہ کرام سے حاصل کیا اور صحابہ کرام نے اس دین کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا اور جس سیدھے اور معتدل دین کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دعوت دی، اس کی معرفت حاصل کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ اس طریقے پر چلا جائے جس پر اہل حدیث چلے اور وہ جائزہ جو منہجِ اہل حدیث کے حق پر ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر تم ان کی جدید اور قدیم تصانیف کا اوّل تا آخر مطالعہ کرو گے تو باوجود ان کے ملکوں اور وقتوں کے مختلف ہونے اور ان کے گھروں کے دور دراز ہونے اور ہر ایک کے مختلف برّاعظم میں مقیم ہونے کے اُنھیں اعتقاد کے باب میں ایک ہی طرز اور ایک ہی راستے پر چلتے ہوئے پاؤ گے۔نہ تو وہ اس راستےسے سر مو منحرف ہوں گے اور نہ ہی دوسرے راستوں کی طرف مائل ہوں گے۔اعتقاد کے باب میں ان کے دل، ایک ہی دل کی طرح ہیں۔اس بارے میں ان کی تحریروں میں معمولی سا اختلاف اور فرق نظر نہ آئے گا۔بلکہ اگر تم ان کی زبانوں سے صادر ہونے والے اقوال اور ان کے اسلاف سے منقول آثار کو جمع کر کے موازنہ |