Maktaba Wahhabi

86 - 111
گویا اپنی نجی وانفرادی زندگی میں انسان آزاد ہے،وہ جس طرزِ فکر کو چاہے، اپنا لے اور جو کام اپنی زندگی میں چاہے کر لے۔آخرت کیا ہے؟ خدا اور رسول کے فرمودات کی کیا حیثیت ہے؟ وہ کیا تلقین کر رہے ہیں اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔اصل حقیقت یہ ہے کہ میں اس دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہوں۔اورجس کا میں مشاہدہ کر رہا ہوں اور جو مسائل مجھے درپیش ہیں وہ ایک حقیقت ہیں،کیونکہ حقیقت کا تعلق صرف محسوسات سے ہے۔اپنے ان دنیاوی مسائل کو میں نے کیسے حل کرنا ہے؟ ان تلخ حقائق کا مجھے سامنا کیسے کرنا ہے؟وہ اس طرح ہونا چاہے کہ اس کا ثمر مجھے اس دنیا میں نظر آنا چاہیے۔یہ ہے وہ مغربی طرز ِفکر جسےایک مسلّمہ قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی بنا پر طے پایا کہ 'مثالی زندگی کا حصول امن سے ممکن ہے اور پر امن بقائے باہمی یہ ہےکہ تمام انسانوں کو ان کی نجی زندگی میں آزاد چھوڑ دیا جائے اور مذہب کو بھی نجی زندگی کا ہی ایک حصّہ قرار دیا جائے۔کیونکہ مذہبی و اُلوہی ہدایات وتعبیرات زندگی کے پیش آمدہ مسائل کا مناسب، معتدل اور قابل عمل حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اسے ایک انفرادی ونجی مسئلے کا درجہ دیا جائے۔سیاست، معیشت اور معاشرت سے اسےکوئی سروکار نہ ہو۔یہ وہ فکری قضیہ ہے جو یو رپ میں صدہا برس کے تاریخی عمل کے بعد تشکیل پایا ہے اور جسے آج پوری دنیا میں ردّوقدح کے بعد لاشعوری طور پر تسلیم کیا جانے لگاہے اور حیاتِ انسانی کی عملاً ترتیب وتشکیل بھی کی جانے لگی ہے۔اسی بنا پر کہا جانے لگا کہ انسان اپنی نجی زندگی میں آزاد ہے، وہ جو چاہے کر ے۔لیکن کسی دوسرے کو کوئی حق نہیں کہ وہ اسے قابلِ ملامت ٹھہرائے۔ اسی طرح اجتماعی زندگی کے حوالے سے ڈاکٹر جاوید اکبر رقم طراز ہیں: ''پبلک زندگی سے مراد فرد کی زندگی کا وہ حصّہ ہے جو وہ دوسرے افراد کے ساتھ تعلقات قائم کر کے گذارتا ہے اور ان تعلقات کے نتیجے میں ایک معاشرہ اور ریاست وجود میں آتی ہے۔جمہوری ریاست میں ان تعلقات کی بنیاد افراد کی
Flag Counter