اغراض اور خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے، نیز اجتماعی فیصلے اس بنیاد پر طے ہوتے ہیں کہ عوام زیادہ سے زیادہ آزادی یعنی سرمائے کا حصول چاہتے ہیں۔''[1] یعنی جب مادی زندگی اصل حقیقت قرار پائی اور مذہب انسان کی زندگی کا نجی مسئلہ طے پایاتو اجتماعی زندگی یا اجتماعی مسائل کے حل اور اجتماعی تعلقات کی استواری کی بنیاد عقلِ محض طے پائی تو نتیجۃً اس حرص وہوا اور مغلوب الشہوات پیکر ِخاکی نے یہی طے کیا کہ انسانی تعلقات کو ایثار ومَحبت جیسی لازوال روحانی دائمی بنیادیں فراہم کرنے کی بجائے اغراض ونفسانیت جیسی وقتی بنیادیں فراہم کی جائیں۔پھر اسی وجہ سے اس غرضی ونفسی تعلق کی ان صورتوں کو قانونی انداز میں منظّم شکل دی جن میں آزادی کو انتہائی ممکنہ حد تک ملحوظ رکھا گیا۔چنانچہ آزادی کے اس تصور کی اسلام میں پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں۔وہ اس دنیا کی تکمیل آخرت کے تصور کے ساتھ کرتا ہے۔ایک اگر عمل ہے تو دوسرا اس کی جزا ہے۔ایک اگر کھیتی ہے تو دوسرا حاصل ہے۔ایک ابتدا ہے تو دوسرا انتہاہے!! اسلام حیاتِ انسانی کو اُلوہی و ربانی بنیادوں پر تشکیل دیتا ہے۔اسلام اعمالِ انسان کا ایک مخصوص سانچہ تیار کرتا ہے، جس میں انسانوں کے باہمی تعلقات کی بنیاد لازوال روحانیت کو قرار دیتا ہے۔وہ زندگی کو انفرادی و اجتماعی جیسے غیر منفک اجزامیں تقسیم کرنے کا تھوڑا سا بھی روادار نہیں ہے۔دونوں کو ایک ہی زاویۂ نظر سے دیکھتا ہے،اسی بنیاد پر اپنے قانون اور نظم وانضباط کی بنیادیں اُٹھاتا ہے اور اسی کو وہ فطری دائرۂ حیات کہتا ہے۔ اس سے انحراف کومسخِ فطرت جیسی کوششوں کے مترادف قرار دیتا ہے۔ الغرض آزادی کا یہ تصور اسلامی نقطہ نظر کے مطابق کسی صورت میں بھی لگا نہیں کھاتا۔لہٰذا اسلامی تصوراتِ مُساوات و آزادی بمقابلہ مغربی تصورات آزادی ومساوات اپنے روح ومقصد میں بالکل مختلف ہے اور جو ظاہری وقانونی شکلیں کچھ تھوڑا سا لگا کھاتی بھی ہیں تو وہ متضاد سَمتوں میں گامزن شاہراؤں کا اتفاقی حادثہ ہے۔اپنی منزل وہدف کے اعتبار سے دونوں یکسر متضاد ہیں!! |