Maktaba Wahhabi

84 - 111
انسانی عقل اس طرح کی سزائیں متعین کرنے سے قاصر ہے تاکہ ایک فرد کو مکمل طور پر ہر طرح کی حفاظت میسر آجائے۔شریعت کی اسی روح کو واضح کرنےکے لئے فقہا نے یہ بنیادی قاعدہ کلیہ بنایا کہ "الاصل براءة الذمة" جس کے معنی یہی ہیں کہ جب تک کسی کے خلاف جرم ثابت نہ ہو وہ برئ الذمہ ہے۔قانونی و شرعی طو رپر اس کی کوئی باز پرس نہیں ہوسکتی اور اسی طرح کسی دوسرے شخص کےجرائم کا بوجھ بھی اس پر نہیں ہوگا...﴿وَلا تَزِرُ‌ وازِرَ‌ةٌ وِزرَ‌ أُخر‌ىٰ﴾[1] اس ضمن میں واضح رہے کہ فقہا کے مذکورہ مسلّمہ قاعدے کے تحت ذمّی بھی شامل ہیں۔جب وہ جزیہ ادا کردیں تو اسلامی ریاست پر لازم ہےکہ ان کی حفاظت بھی اسی طرح کرے جیسے مسلمانوں کی جاتی ہے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: "إنما بذلوا الجزیة فتکون أموالهم کأموالنا ودماؤهم کدمائنا"[2] ''اُنھوں نے جزیہ اس لیے خرچ کیا ہے کہ ان کے مال ہمارے مال کی طرح اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح ہو جائیں۔'' نیز کئی ایک نصوصِ شرعیہ سےبھی اس چیز کی تلقین ملتی ہے۔اسی طرح نقل و حرکت اورنقل مکانی کی آزادی کا بھی اسلام فطری دائرہ حیات میں رہتے ہوئے قائل ہے۔ اس باب میں اسلام کسی پر کوئی خاص پیشہ اپنانےکی پابندی عائد نہیں کرتا بلکہ وہ حلال اشیااو رجائز طریقوں سے کمانے کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔پھر فرد کو معاشرے کی بھینٹ نہیں چڑھاتا۔ایک فرد جب اس کی عائد کردہ شرائط کے مطابق کماتا ہے تو وہ اسے یہ نہیں کہتا کہ اجتماعی و ریاستی فلاح و بہبود کی خاطر اپنی اس ساری جائز دولت سے دست کش ہوجاؤ، بلکہ وہ انفرادی ملکیت کا قائل ہے۔پھر وہ فرد کو ہی ملکیتی حقوق دینےپراکتفا نہیں کرتا بلکہ اس جائز مال میں سے ایک محدود حصہ اجتماعی فلاح و بہبود کے لیےبھی مختص کرتاہے۔تاکہ معاشرہ ارتکازِ دولت اور معاشی اِفراط و تفریط سے بچ کر اعتدال اور توازن کی بہترین
Flag Counter