Maktaba Wahhabi

83 - 111
سلب کرتا ہے۔ روایت پرستی اور اسلاف سے انقطاع اسی کی وجہ سے کیا گیا۔سائنسی تحقیقات و ایجادات کےفکری پہلوؤں کی تعبیر بھی اسی کے مطابق کی گئی۔الغرض انسانی معاشرے کی بنا ایسے نئے فلسفوں کے مطابق رکھی گئی جو اپنے طرزِفکر، اپنی تعبیر اور اپنی اصل میں'آزادی' کو ہی قدر ِ مطلق تصور کرتے تھے۔ آج جب اسلامی مفکرین یا اسلامی سکالرز اسلامی ربانی تعلیمات کا مغرب کے خود ساختہ نظریات سے موازنہ کرنےلگتے ہیں تو وہ مغربی آزادی کو عین اسلامی آزادی قرار دینے کی غلطی کررہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کےپیش نظر مغربی آزادی کے فلسفیانہ پہلوؤں کی بجائے قانونی، سیاسی یا زیادہ سے زیادہ مذہبی آزادی کا تصور ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں اہل مغرب کے ہاں بھی آزادی کے یہی پہلو تھے۔لیکن آج ان کے ہاں اسے ایک فلسفہ حیات کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں ہم دیکھیں تو پھر آزادی کے دو مغربی مفاہیم ہمارے سامنے آتے ہیں جن میں سے ایک کے ساتھ تو اسلام بس اپنی ظاہری سی شکل میں لگا کھاتا ہے،اگرچہ روح اور حقیقت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس میں بھی اسلامی نظریہ حیات مختلف ہے۔جبکہ دوسرے تصورِ آزادی سےتو کسی اعتبار سے لگا بھی نہیں کھاتا۔چنانچہ ہم ذیل میں آزادی کے دونوں مفاہیم کا اسلام کے ساتھ تفصیلی موازنہ پیش کرتے ہیں: ۱۔آزادی کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ ہر شخص اپنی نقل و حرکت میں آزاد ہو، ہر طرح کے ظلم و جبر سے محفوظ ہو۔نقل مکانی کرنے میں آزاد ہو، حکومت اسے قانونی جوازکے بغیر گرفتار، قید اور نظر بند نہ کرسکتی ہو۔ یہ آزادی کا قانونی و سیاسی پہلو ہے۔اسلام بھی اپنے فلسفہ حیات کےمطابق اسے تسلیم کرتا ہے، چنانچہ اسلام ہر طرح کے ظلم و زیادتی سے انسان کو محفوظ کرتا ہے۔اسلامی شریعت کے مقاصد ہی یہی ہیں کہ انسانی جان، مال، عزت و آبرو اور عقل کی حفاظت کی جائے۔اسے ہر طرح سے دستِ ظلم کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔اسلام نے انسان کے ان بنیادی حقوق پر دست درازی کرنے والوں کے خلاف ایسی سخت اور حکمت پر مبنی سزائیں مقرر کی ہیں کہ
Flag Counter