Maktaba Wahhabi

82 - 111
بات کرتی اور جس کو پروان چڑھاتی ہے وہ مغرب کا دیا ہوا تصورِ مساوات ہے، اس لئے اس سے بچنا از بس ضروری ہے اور مسلمانوں کو جمہوریت کے لفظ مساوات سے دھوکا ہرگز نہیں کھانا چاہئے۔جمہوریت کی قدر مساوات، اسلام کے تصورِ مساوات سے یکسر مختلف ہے!! ۲۔آزادی 'آزادی' ایک ایسا حق ہے جس کا دورِ جدید میں مغرب نےبہت زیادہ چرچا کیا ہے۔آج اگر سارے مغربی فلسفے کا تجزیہ کریں تو وہ سارےکاسارا اسی بنیاد ی حق کے گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے۔آزادی مغرب کی'قدرِ مطلق'ہے۔اسی کی بنیادپر وہ اچھائی اور بُرائی کا فیصلہ کرتے ہیں۔جس تصورِ حیات میں جس قدر آزادی کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہو، ان کے ہاں وہ اسی قدر اہمیت کا حامل ہے۔اس کے برعکس جس نظریۂ زندگی میں انسانی آزادی جس قدر سلب ہوگی وہ اسی کی نسبت سے کم وقعت ہوگا۔اگرچہ آزادی کی یہ بحث یافلسفہ آغاز میں تو محدود سادائرہ رکھتی تھی، لیکن رفتہ رفتہ حالات کے تقاضوں اور عوامی شعور کےمطابق وسعت اختیارکرتا چلا گیا۔مثلاً سترہویں، اٹھارویں صدی تک جب کلیسا،بادشاہوں اور جاگیرداروں کا ظلم و ستم اپنی انتہاؤں کو چھونے لگا تو یورپی عوام کی طرف سے بغاوت کرتے ہوئے یہ مطالبات سامنے آئے : a۔مذہبی تعبیرات کی بجائے، سائنسی تحقیقات میں آزادی ہو۔ b۔کلیسا اور بادشاہوں کے سیاسی جبر کی بجائے، آزادانہ سیاسی نظام ہو۔ c۔جاگیر دارانہ معاشی سرکل اور مذہبی و سیاسی ظالمانہ ٹیکسوں کی بجائے آزادانہ سرمایہ کاری ہو۔ اگر'آزادی' کاتاریخی پس منظر سمجھیں تو ابتدائی طور پر آزادی کی یہی تین سطحیں سامنے آتی ہیں۔یعنی سائنسی، سیاسی اور معاشی سطح پر آزادی حاصل ہو۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تصورِ آزادی نے سارے کے سارے مغربی فلسفے کو اپنے احاطے میں لے لیا اور زندگی کے ہر شعبے میں اسی پیمانے کے مطابق اقدار کا تعین کیا جانے لگا چنانچہ آزادی ہی خیر و شر کا معیار ٹھہری۔اس کی بنیاد پر ملکی قوانین تشکیل دیےجانے لگے، حتیٰ کہ اس کی بنیاد پر مذاہب کو بھی پرکھا جانےلگا۔وہ مذہب مطعون ٹھہرایا جانے لگا جو مذکورہ انسانی آزادی کو
Flag Counter