قانون، جمہوری معاشی نظام وضع کیے گئے بلکہ ایک جمہوری معاشرے کے خطوط اسی تصور پر کھینچے گئے ہیں۔ اسلام کی نظر میں یہ مساوات کچھ بھی اہمیت و وقعت نہیں رکھتی۔اسلام ایک نظریۂ حیات ہے اور وہ دنیا و آخرت کی کامیابی صرف اپنے ساتھ ہی مربوط کرتا ہے۔اپنے غلبے کے لیے جدوجہد کرنے پر زور دیتا اور تلقین کرتا ہے۔وہ اپنے آپ کو'الحق'سے تعبیر کرتا ہے۔جس کا مطلب یہی ہے کہ صرف وہی طرزِز ندگی درست ہے جسے وہ اپنانے کی دعوت دیتا ہے، البتہ باقی طرز ہائے حیات کو برداشت کرنے کی تعلیم دیتا ہے، چناں چہ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿ هُوَ الَّذى أَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ﴾[1] ''وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کرے۔'' اور دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿لا إِكراهَ فِى الدّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشدُ مِنَ الغَىِّ فَمَن يَكفُر بِالطّٰغوتِ وَيُؤمِن بِاللّٰهِ فَقَدِ استَمسَكَ بِالعُروَةِ الوُثقىٰ لَا انفِصامَ لَها ۗ وَاللّٰهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴾ [2] ''کچھ زبردستی نہیں دین میں۔بے شک خوب جدا ہو گئی ہے نیکی راہ گمراہی سے تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے بڑی محکم گرہ تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں اور اللہ سنتا جانتا ہے۔'' الغرض مساوات کا ایک تصور اسلامی ہے، جہاں قانون وشرع کی نظر میں سب برابر ہیں، یہ مساوات کا صحیح تصور ہے۔لیکن اہل مغرب کے ہاں مساوات کا تصور خیر وشر، نیکی اور برائی میں انسانی حق ہونے کی بنا پر مساوات ہے، ظاہر ہے کہ ہردو کے ہاں ایک ہی لفظ کے دو پہلو باہم متضاد ہیں۔اور یہ مساوات اسلام میں بالکل ناقابل قبول ہے۔اس لئے مغرب کا تصورِ مساوات بالکل اور مفہوم اور مختلف تناظر رکھتاہے۔جمہوریت جس تصورِ مساوات کی |