تشکیل پاتا ہے۔چنانچہ ہر قوم کا اپنا ایک فلسفہ وفکر ہوتا ہے،اس لیے اہل علم وفن اپنے افکار ونظریات کے اظہار کے لیے اصطلاحات وضع کرتے ہیں، ان اصطلاحات میں دوسری قوم کے ساتھ لفظی اشتراک بھی پایا جاتا ہے تاہم الفاظ کا اشتراک تصورات کے اشتراک کو مستلزم نہیں۔کیونکہ کسی قوم کے نظریات صدیوں کے تاریخی وثقافتی تعامل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔مثلاً اہل مغرب جب آزادی، مُساوات اور حقوقِ انسانی وغیرہ جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں تو اس کے پیچھے وہ تصورات یا فلسفہ وفکر مراد نہیں ہوتے جو اہل اسلام کے پیش نظر ہیں۔کیونکہ ان کا اپنا ایک علیحدہ فلسفہ حیات اور طرزِ فکر ہے جو کہ اہل اسلام سے جداگانہ بلکہ بعض صورتوں میں متضاد ہے۔ذیل میں اِنہی دونوں پہلوؤں کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ تصویر کے دونوں روپ سامنے آ جائیں۔ ۱۔مُساوات مساوات کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔یہ اسلام کے بنیادی او رمرکزی اُصولوں میں سے ہے۔شریعت نےاپنے تمام احکامات کے انطباق میں مساوات کی بڑی سختی سے تلقین کی ہے کہ احکام شرعیہ کے نفاذ میں ہر قسم کے رنگ و نسل کے امتیازات کو یکسر ختم کیا جائے۔معاشرتی وحدت کے لیے جاہلی بنیادوں کو پرکاہ کے برابربھی اہمیت نہ دی جائے اور صرف اسلام کی دی ہوئی عالم گیر بنیاد کو اپنایا جائے جوعدل و انصاف او رمساواتِ محضہ پر مبنی ہے۔جس میں علاقائی وقبائلی تعصّبات اور رنگ ونسب کے امتیازات کی بیخ کنی کی گئی ہے اور جس میں نسلیت کے خطوط صرف ذاتی و شخصی تعارف کے لیے کھینچے گئے ہیں۔ بلکہ اس بات میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ اسلامی مساوات جمہوری مساوات سے کئی لحاظ سے مختلف ہے۔مثلاً جمہوری مساوات کا حصول بڑی طویل جدوجہد، مسلسل کشمکش اور بے دریغ قربانیوں کے بعد ممکن ہوا۔یعنی آغاز میں جمہوری نظام اپنی ساخت میں مساوات جیسی کوئی خاص تعلیم نہیں رکھتا تھا بلکہ بتدریج تصوری ارتقا اور تجربہ کی بنیاد پر اس میں مساوات کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اسلام اپنے آغاز بلکہ اپنی اُٹھان سے ہی مساوات لے کر آیا۔ اسلامی مساوات ربانی اور عالم گیر تعلیمات پر مشتمل ہے جبکہ جمہوری مساوات انسانی |