Maktaba Wahhabi

79 - 111
عقل اور تجربہ پر مبنی ہے۔اسی وجہ سے جمہوری مساوات عالمگیر بنیاد، بےلاگ عدل و انصاف اور اعتدال و توازن سے محروم ہے جبکہ اسلامی مساوات ان تمام پہلوؤں کو اپنے اندر بڑی حسن وخوبی اور موزونیت کے ساتھ سموئے ہوئے ہے۔ جیسے کہ اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ مساوات شریعت کا اصل الاصول ہے،یہ ساری شریعت کی بنیاد ہے۔موضوع کی مناسبت سے اس کے دونوں پہلو ؤں کوواضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قانونی مساوات شریعت کی نظر میں قانونی طور پر سب برابر ہیں۔کسی کو بھی 'استثنا'حاصل نہیں۔اجراے قوانین میں کسی بھی قسم کی قرابت داری اور محبت کا احساس امر مانع نہیں ہیں،تمام قوانین بلا رعایت و امتیاز جاری و ساری ہوتے ہیں،بلکہ اس بات میں اسلامی مساوات کی انتہا اور طرۂ امتیاز یہ ہے کہ وہ نظریاتی وحدت کوبھی کوئی اہمیت نہیں دیتا۔یہ اسلام کا بے لاگ عدل او رمساواتِ محضہ کا مظہر اَتمّ ہے۔یہی وہ روح اوراساس ہے جو اس حدیث میں ہمیں نظر آتی ہے: ((قَالَ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللّٰهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا))[1] ''آپ نے فرمایا:اے لوگو! تم میں سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیاگیا، ان میں سے جب کوئی معزز چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور ان میں سے کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد جاری کر دیتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اُس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔'' او ریہ کلمات زبانِ نبوت سے اس وقت صادر ہوئے تھے، جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شرعِ اسلامی کا اجرا کرنے لگے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت قریبی شخصیت حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ بن زید نے صحابہ کے کہنے کی وجہ سے سفارش کی تھی۔یہ ہے وہ مساوات جو اسلام کا غازہ ہے، جو عدل کی
Flag Counter