مدلل انداز میں پیش کیا جس کی وجہ سے نہ صرف اُن کے قریبی عزیزوں اور دوستوں بلکہ معاشرے کے بعض دوسرے ذہین افراد نے بھی اُن کے دعوے کی سچائی کو مان لیا۔ڈاکٹر عبد الحکیم خان ۲۰ برس تک مرزا صاحب کے مرید رہے بعد ازاں توبہ کر لی اور مرزا صاحب کے شدید مخالف بن گئے۔ ۱۳۔مریض کو عموماً احساس اور اعتراف ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کے نظریات اور خیالات کو درست خیال نہیں کرتے مگر پھر بھی وہ اُن کی واضح تردید سے مطمئن نہیں ہوتا۔چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہیں: ''اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ (مولانا ثناء اللہ امرتسری) اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی۔اور آخر وہ ذلت اور خسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے۔''[1] یعنی مرزا صاحب کو بھی احساس تھا کہ دوسرے لوگ ان کے خیالات کو درست نہیں سمجھتے، مگر مولانا ثناء اللّٰہ رحمہ اللہ اور دوسرے علماے کرام کی واضح تردید سے بھی آپ مطمئن نہ ہوئے بلکہ نبوت کا شوق جاری رکھا۔لطف کی بات یہ ہے کہ مرزا صاحب مذکورہ بالا اشتہار کے ایک سال بعد فوت ہو گئے جبکہ مولانا ثناء اللّٰہ رحمہ اللہ امرتسری چالیس سال تک زندہ رہے۔ ۱۴۔اگر چہ مرزا صاحب کو کوئی دوسری شدید ذہنی بیماری Psychosis لاحق نہ تھی جس کی وجہ سے وہ ظاہری طور پر نا رمل معلوم ہوتے تھے مگر مرزا صاحب کے صاحبزادے مرزا بشیر احمد نے ان کی بعض خفیف ذہنی بیماریوں Neuroses کا ذکر کیا ہے مثلاً ''مرزا صاحب کو جوانی میں ہسٹریا کی شکایت ہو گئی تھی اور کبھی کبھی اس کا ایسا دورہ پڑتا تھا کہ بے ہوش ہو کر گر جاتے تھے۔''[2] |