Maktaba Wahhabi

70 - 111
دوسرے کے پاس نہیں گئی۔محمد کی چیز، محمد کے پاس ہی رہی۔[1] ۷۔اس مرض کے عام مریضوں کی طرح مرزا صاحب کو بھی یہ مرض ۳۰ سال کے بعد عمر کے دوسرے حصہ میں لاحق ہوا۔آپ ۴۰۔۱۸۳۹ء میں پیدا ہوئے۔۱۸۹۱ء میں پہلی مرتبہ اپنی تصنیف ' فتح الاسلام' میں مثیل مسیح اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔بعد ازاں ۱۹۰۱ء میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ ۸۔خبطِ عظمت کے دوسرے مریضوں کی مانند مرزا صاحب بھی بہت حساس تھے۔اپنے خلاف تنقید ہرگز برداشت نہ کر سکتے تھے۔چنانچہ اس دور کے جن علما نے ان کے دعویٰ نبوت پر تنقید کی، وہ ان پر برس پڑے حتیٰ کہ گالی گلوچ پر اتر آئے۔مثلاً مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں: '' کفن فروش، خبیث، سور، گوں خور۔''[2] مولانا سعد اللہ لدھیانوی رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں: '' غول، لئیم،فاسق، ملعون، نطفہ، سفہار، خبیث، کنجری کا بیٹا۔''[3] ۹۔خبط عظمت کے تمام مریضوں کی طرح مرزا صاحب بھی زبردست احساسِ برتری کا شکار تھے، ان کا یہ احساس اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ اوّل تو وہ اپنے آپ کو تمام انبیا کا ہم پلہ اور ہم چشم سمجھتے تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ اپنے تئیں جامع کمالاتِ انبیا بلکہ تمام انبیا سے افضل گردانتے تھے۔چنانچہ لکھتے ہیں: الف: خدا نے میرے ہزار ہانشانیوں سے میری وہ تائید کی ہے کہ بہت کم نبی ہیں جن کی تائید کی گئی۔[4] ب: اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر راست باز اور مقدس نبی گذر چکے ہیں، ایک
Flag Counter