کی طرف سے مامور اور عصر حاضر کے مجدد ہیں، اور اُن کو حضرت مسیح سے مماثلت ہے۔[1] چنانچہ مرزا صاحب نے ایک نیا دین وضع کیا اور نبی بن گئے۔اس کے لیے قرآن وحدیث کی عجیب وغریب تشریح اور تفسیر کی جو کہ نہ صرف علماے امت کے اجماع کے خلاف ہے بلکہ ان کے اپنے ابتدائی خیالات کے بھی برعکس ہے، مثلاً ابتدا میں آپ ختم نبوت کے قائل تھے اور ختم نبوت کے منکر کو کافر سمجھتے تھے، چنانچہ لکھتے ہیں: '' قرآن کریم بعد خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔''[2] '' اللہ کو شایان شان نہیں کہ خاتم النّبیین کے بعد نبی بھیجے اور نہیں شایان کہ سلسلۂ نبوت کو دوبارہ شروع کر دے، بعد اس کے کہ اسے قطع کر چکا ہو۔''[3] ہم اس بات کے قائل ہیں اور معترف ہیں کہ نبوت کے حقیقی معنوں کی رو سے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ کوئی نیا نبی آ سکتا ہے اور نہ پرانا۔''[4] چنانچہ بعد ازاں جب مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو لفظ ختم نبوت کی عجیب وغریب تعبیر اور تفسیر کی اور اس کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھال لیا۔چنانچہ لکھتے ہیں: '' وہ (آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ) ان معنوں میں خاتم الانبیا ہیں کہ ایک تو تمام کمالاتِ نبوت اُن پر ختم ہیں۔[5] '' یعنی 'خاتم النّبیین' کے معنیٰ آخری نبی کے نہیں بلکہ افضل النبیین کے ہیں۔اسطرح نبوت کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے البتہ کمالاتِ نبوت حضور پرختم ہو گئے۔ مرزا صاحب نے اپنی نبوت اور رسالت کے لیے ایک دلچسپ تاویل کی۔لکھتے ہیں: ''مجھے بروزی صورت میں نبی اور رسول بنایا ہے اور اس بنا پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا۔مگر بروزی صورت میں میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اس لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا، پس نبوت اور رسالت کسی |