بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ جب مریض کو یہ وسوسے آنے شروع ہوتے ہیں تو مریض کے دوست احباب اور عزیز واقارب کو اس کی اس تبدیلی کا احساس تک نہیں ہوتا اور وہ اس طرف توجہ نہیں دیتے کیونکہ مریض ظاہری طور پر بالکل نارمل معلوم ہوتا ہے۔پھر جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے یہ وسوسے زیادہ منظم ہوتے جاتے ہیں اور مریض زیادہ مدلل، منطقی اور معقول معلوم ہوتا ہے۔مرض جتنا شدید ہو گا، اس کی گفتگو اتنی ہی مدلل، منطقی اور معقول معلوم ہوتی ہے۔[1] ایسے مریض اپنے خیالات اور نظریات کو نہایت مربوط اور مدلل انداز میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ لوگ ان پر یقین کر لیتے ہیں۔ایسے افراد اپنے رشتہ داروں، دوست احباب اور بعض دوسرے معقول افراد کو اپنے دعوے کی سچائی پر مطمئن کر لیتے ہیں۔[2] مریض عموماً سمجھتا ہے اور اسے اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کے نظریات اور خیالات کو وسوسے خیال کرتے ہیں مگر پھر بھی وہ ان کی واضح تردید سے مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ اس کا وسوسی نظام بہت پختہ اور اس کی ساخت پرداخت حد درجہ منطقی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مریض اپنے وسوسوں پر جما ٹکا رہتا ہے۔[3] عمومی وجوہات پیرانائے کی تشکیل میں مریض کی معاشرتی، سماجی، پیشہ وارانہ اور ازدواجی زندگی کی ناکامیاں اہم رول ادا کرتی ہیں یہ ناکامیاں مریض کی خودی (اَنا) اور شخصی اہمیت کے تصور کو خطرے میں ڈال دیتی ہے جس سے اس کا وقار سخت مجروح ہوتا ہے۔ایسے افراد کے مقاصد زندگی اور خیالات بہت بلند ہوتے ہیں مگر جب وہ ان کو حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ ناکامی ان میں احساسِ کمزوری اور احساسِ کمتری پیدا کر دیتی ہے اور پھر وہ اس احساسِ کمتری کو |