Maktaba Wahhabi

59 - 111
تھے، اگر انہوں نے یہ دعویٰ سوچ سمجھ کر ایک سکیم کے تحت کیا ہوتا تو ان کی کتب میں واضح تضادات نہ ہوتے، کیونکہ کسی بھی نارمل فرد کی تحریروں میں اس قدر نمایاں تضادات نہیں ہوتے جبکہ مرزا صاحب کی تحریریں تضادات کا شاہکار ہیں۔خود مرزا صاحب کا ارشاد ہے: ''کسی عقل مند اور صاف دل انسان کے کلام میں ہرگز تناقص نہیں ہوتا، اگر کوئی پاگل یا مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں ملا دیتا ہو اس کا کلام بے شک متناقض ہوجاتا ہے۔''[1] ''جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔''[2] مگر خود مرزا صاحب کا کلام تضاد اور تناقض سے بھرا پڑا ہے۔چند مثالیں درج ذیل ہیں: ۱۔''اے لوگو! دشمن قرآن نہ بنو! اور خاتم النّبیین کے بعد وحی نبوت کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو، اس خدا سے شرم کرو جس کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے۔''[3] ''ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں۔''[4] دوسری طرف فرماتے ہیں:'' اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا ہے۔''[5] ''سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔''[6] ۲۔''میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں ہو سکتا۔''[7] دوسری طرف لکھتے ہیں:'' خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اُس نے مجھے قبول نہیں کیا، وہ مسلمان نہیں۔''[8] ۳۔''لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں۔مؤمن لعان (لعنت کرنے والا) نہیں ہوتا۔''[9]
Flag Counter