Maktaba Wahhabi

107 - 111
اس عبارت میں عمار خان کا ایک ایک جملہ صرف ایک مذاق ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاد کے بارے میں عمار خان کے نظریات قرآن وسنت کی نصوص اور ائمہ سلف کے ارشادات کی روشنی میں یہ بات بالکل عیاں ہے کہ دینِ اسلام کی سربلندی اور کفر کی شوکت کو توڑنے کے لیے جہاد قیامت تک باقی رہنے والا ایک مقدس فریضہ ہے۔لیکن عمار خان صاحب نے جہاں دیگر بہت سے اُمور میں اُمت کی اجتماعی رائے سے اختلاف کیا ہے، وہیں اُنھوں نے اس فریضے کے حوالے سے بھی اختلاف کیا ہے۔چنانچہ پوری ملتِ اسلامیہ کے برعکس وہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ غلبہ دین کی خاطر جہاد صرف عہدِ رسالت وصحابہ کے ساتھ خاص تھا جو ان کے ساتھ ہی ختم ہوگیا ہے۔اب کسی کو بھی قیامت تک محض غلبہ دین کے لیے تلوار اُٹھانے کی اجازت نہیں۔موصوف لکھتے ہیں: ۱۔'' قرآن و سنت کی نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو اہل ایمان کو عہد نبوی کے معروضی حالات کے تناظر میں جہاد و قتال کا حکم دو طرح کے مقاصد کے تحت دیا گیا: ۱۔اہل کفر کے فتنہ و فساد اور اہل ایمان پر اُن کے ظلم و عدوان کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ ۲۔اور دوسرے کفر و شرک کا خاتمہ اور باطل ادیان کے مقابلے میں اسلام کا غلبہ اور سر بلندی قائم کرنے کے لیے۔'' (ص۳۳۶) ۲۔''اسلامی تاریخ کے صدرِ اول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو کاروں کے ہاتھوں جزیرۂ عرب اور روم و فارس کی سلطنتوں پر دینِ حق کا غلبہ قائم ہو جانے کے بعد غلبہ دین کے لیے جہاد و قتال کے حکم کی مدتِ نفاذ خود بخود ختم ہو چکی ہے۔یہ شریعت کا کوئی ابدی اور آفاقی حکم نہیں تھا اور نہ ہی اس کا ہدف پوری دنیا پر تلوار کے سائے میں دین کا غلبہ اور حاکمیت قائم کرنا تھا۔اس کے بعد قیامت تک کے لیے جہاد و قتال کا اقدام دین کے معاملے میں عدمِ اکراہ اور غیر محارب کفار کے ساتھ جنگ سے گریز کے ان عمومی اور اخلاقی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی کیا جائے گا جو قرانِ مجید کی نصوص میں مذکور ہیں۔''
Flag Counter