دلوں میں ذلت و رسوائی کے احساسات اور اس کی باز یابی کے حوالے سے ان کے سینوں میں صدیوں سے تڑپنے والے جذبات بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہیں۔یہ ایک نہایت اعلیٰ، مبارک اور فطری جذبہ ہے اور خود قرانِ مجید یہود سے اُن کے اس مرکزِ عبادت کےچھن جانے کی وجہ،ان کے اخلاقی جرائم کو قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس امکان کو بھی صراحتاً تسلیم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اور اُن کی آزمائش کے لیے اس مرکز کو دوبارہ ان کے تصرف میں دے دے۔'' (ص۳۰۸) بنی اسرائیل اور یہود کے بارے میں قران پاک نے جو کچھ کہا ہے اور دورِ رسالت اور دور ِصحابہ میں یہود نے اپنے جس قبیح کردار کا مظاہرہ کیا، اس کو پیش نظر رکھیں تو یہ سب باتیں عمارخان ناصر کے ڈھکوسلے او ربے پرکی باتیں ہیں۔اس کے باوجود پھر جو کوئی یہ کہے کہ مبغوض و مردود ہونے کی حالت میں یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتِ خاصہ سے ان کا مرکز ان کو دوبارہ دلوادیں۔ہاں اگر یہ اسلام قبول کر لیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا کی نبوت کو تسلیم کر لیں تو دیگر مسلمانوں کے ساتھ مل کر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔اس پر عمار خان طیش میں آتے ہیں اور لکھتے ہیں: ''یہ ...بالکل بے معنی (بات )ہے ...جب اسلامی شریعت میں یہود کو ایک مذہبی گروہ کے طور پر باقی رہنے اور اپنے مذہب کی پوری آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق دیا گیاہے (یہ عمار خان کا غلو ہے یہاں اتنا ہی اشارہ کافی ہے تفصیل کتاب میں ملے گی) اور ان کے مذہبی مقامات و شعائر کے احترام کی تلقین کی گئی ہے تو ان کے اپنے قبلے سے محروم کرنے کی کیا تُک ہے؟ کسی مذہبی گروہ سے یہ کہنا کہ تمہیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کا تو پورا پورا حق ہے اور ہماری طرف سے تمہارے مذہبی شعائر و مقامات کو بھی پوری طرح تحفظ حاصل ہو گا،لیکن اگر تم اپنے قبلے کے ساتھ کوئی تعلق باقی رکھنا اور اس میں عبادت کا حق حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے تمہیں اپنے مذہب سے دستبرداری اختیار کر کے ہمارے مذہب میں آنا ہو گا۔آخر ایک مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟'' (ص۳۱۶) |