حالانکہ سیدھی سی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمی نبوت و رسالت کے ظاہر ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر کونسی عبادت، کونسی اطاعت اور کونسا حسن کردار مقبول ہے! یہود کے لیے عمار خان اپنا دردِ دل دکھانے کو لکھتے ہیں: ۱۔''ہمارے نزدیک اس معاملے میں سب سے نازک سوال اُمّتِ مسلمہ کی اخلاقی پوزیشن کا ہے ... اُمّتِ مسلمہ کے سیاسی اور معاشرتی وجود کی با مقصد بقا کے لیے سب سے پہلے اس کے اخلاقی وجود کا تحفظ ضروری ہے۔اگر اُمّت کسی معاملے میں اجتماعی طور پر ایک غیر اخلاقی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک نہایت سنگین صورت حال ہے جس کی اصلاح کی کوشش باقی تمام کوششوں سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔'' (ص۳۰۶) ۲۔''مسجدِ اقصیٰ کی حیثیت یہود کے نزدیک کسی عام عبادت گاہ کی نہیں بلکہ وہی ہے جو مسلمانوں کے نزدیک مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی کی ہے۔مسلمان اپنی عام عبادت گاہوں کے برخلاف ان دونوں مساجد کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اگر خدا نخواستہ کبھی وہ ان کے ہاتھ سے چھن جائیں اور کسی دوسرے مذہب کے پیروکار اسے اپنی مذہبی یا دنیوی سر گرمی کا مرکز بنا لیں تو ان پر سے مسلمانوں کا حق ختم ہو جائے گا۔اپنے قبلے کے بارے میں یہ احساسات و جذبات دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے حوالے سے مانا جانے والا یہ اُصول عدل و انصاف کی رو سے دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے لیے بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔کسی قوم کو داخلی احتساب پر آمادہ کرنا ویسے بھی کوئی آسان کام نہیں،لیکن اس کے ساتھ جب اجتماعی نفسیات میں یہ غرہ (گھمنڈ)بھی ہوکہ ہم تو خداکی آخری شریعت کے حامل اور افضل الرسل کی اُمت ہیں،جبکہ ہمار امخالف گروہ ایک مغضوب وملعون گروہ ہے،تو عدل وانصاف اور غیر جانبداری کی دعوت کوئی آسانی سے ہضم ہونے والی چیز نہیں رہ جاتی۔'' (ص۳۰۷) ۳۔'' ... اسی طرح یہود کی شریعت میں ہیکل کے مقام و حیثیت، اس کی تباہی و بربادی پر ان کے |