Maktaba Wahhabi

108 - 111
(ص۳۶۲) خلفائے راشدین کی جنگی پالیسی اور محدود اہداف عمار خان صاحب نے اپنے اس خودساختہ نظریہ جہادکا خلفاے راشدین کوبھی پابند کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کو عمار صاحب خلفائے راشدین کی جنگی پالیسی کا نام دیتے ہیں اور اس کی یہ شقیں بتاتے ہیں: ۱۔جہاد و قتال سے ان(یعنی خلفائے راشدین) کا مقصد اسلامی سلطنت کی غیر محدود توسیع نہیں تھا،بلکہ ان کا ہدف صرف رومی و فارسی سلطنتیں تھیں۔ ۲۔رومی اور فارسی سلطنتوں کے خلاف جنگ کی اجازت حاصل ہونے کے باوجود وہ ان کے تمام علاقوں پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ ان کے پیش نظر اصلاً صرف شام اور عراق کے علاقے تھے اور وہ ان سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے تھے۔(روم سے مراد پوری رومی سلطنت نہیں بلکہ صرف شام کا علاقہ ہے)۔ ۳۔ان علاقوں کو فتح کرنے کے بعد جنگ کو روکنے کا فیصلہ وقتی حالات کے تحت نہیں تھا۔بلکہ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی رکاوٹ حائل ہو جائے کہ نہ دشمن کی فوجیں ان تک آ سکیں اور نہ مسلمان ان تک پہنچ سکیں۔ ۴۔روم و فارس یا ان کے زیر اثر علاقوں کے علاوہ دوسری قوموں کے خلاف اُنھوں نے صرف اسی صورت میں اقدام کیا جب انھوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں دشمن کی مدد کی یا ان کی طرف سے میدانِ جنگ میں آئے۔ ۵۔سمندر کے راستے سے کوئی جنگی مہم بھیجنے کے وہ سرے سے قائل ہی نہیں تھے اور اس کو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے طریقے کے منافی اور مسلمانوں کی جانوں کو بلا ضرورت خطرے میں ڈالنے کے مترادف سمجھتے تھے۔(ص۳۹۲،۳۹۳) عمار خان صاحب کے ذکر کردہ یہ تمام نکات جن کو اُنھوں نے خلفاے راشدین کی طرف منسوب کیا ہے سب کے سب غلط ہیں جن کی تفصیلی تردید زیر نظر کتاب میں موجود ہے۔
Flag Counter