Maktaba Wahhabi

94 - 95
پڑھی۔ اگر میں اتنی محنت عربی زبان پر کرتا توعربی میں مزید ماہر ہو جاتا۔ موصوف تقریباً 23 سال کی عمر میں دینی علوم کی طرف متوجہ ہوئے۔ شروع میں انہوں نے اپنے اُستاد شیخ اللہ دتہ رحمۃ اللہ علیہ سے علم سیکھا اور جہلم میں باقاعدہ پڑھ کر وہاں سے سندِ فراغت حاصل کی۔ موصوف انتہائی ذہین انسان تھے، اس لیے اُنہوں نے چند سالوں میں ہی دینی علوم میں دسترس حاصل کر لی تھی اور پھر اُنہوں نے دینی کتب کا مطالعہ شروع کر دیا جس سے ان کے علم میں نکھار پیدا ہو گیا۔ میں نے 1984ء میں عذابِ قبر کے منکر ڈاکٹر عثمانی کے ردّ میں ایک کتاب 'الدین الخالص'لکھی تھی جس کا مطالعہ موصوف نے بھی کیا۔ اس وقت تک میری شیخ صاحب سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ شیخ نے مجھے خط لکھا اور اس میں میری ایک غلطی کی نشاندہی کی میں نے ایک محدث ابواحمد الحاکم کے متعلق لکھا کہ وہ متسا ہل ہیں شیخ صاحب نے بتایا کہ ابو احمد الحاکم متساہل نہیں ہیں بلکہ وہ ابو عبد اللہ الحاکم صاحب مستدرک ہیں کہ جو متساہل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محترم شیخ صاحب کے علاوہ کسی دوسرے عالم نے میری اس غلطی کی نشاندہی نہ کی تھی۔ پھر شیخ صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا کہ شروع میں، مَیں قبر میں سوال وجواب کے وقت اعادۂ روح کا قائل نہ تھا لیکن آپ کی کتاب کے مطالعہ کے بعد میں اعادۂ روح کا قائل ہو گیا۔ شیخ صاحب ایک مرتبہ کراچی تشریف لائے تھے۔ کمال عثمانی صاحب نے ان سے کہا کہ آپ نمازِ جمعہ کے بعد ڈاکٹر عثمانی سے بات کرنے کے لیے تشریف لے جائیں اور اُن سے سوال کریں کہ اُنہوں نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو کس دلیل کی بنیاد پر کافر قرار دیا ہے؟ (نعوذ باللہ من ذلک) ڈاکٹر عثمانی کا دعویٰ تھا کہ چونکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عقیدہ تھا کہ قبر میں سوال وجواب کے وقت روح لوٹائی جاتی ہے، اس بنا پر میرا ان کے بارے میں یہ موقف ہے۔ اور دلیل کےطور پر ڈاکٹر موصوف نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب 'کتاب الصلوٰۃ' کا حوالہ دیا تھا اور حوالہ کے طور پر اُنہوں نے دیوبندی عالم مولانا سرفراز خان صفدر کی کتاب 'تسکین الصدور' کا عکس دیا تھا جبکہ کتاب الصلوٰۃ میں یہ مسئلہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور پھر کتاب الصلوٰۃ کا
Flag Counter