دار الافتاء شیخ صالح المنجد 'صلاۃ حاجت' کی شر عی حیثیت سوال: نمازِ حاجت بارہ ركعت پڑھى جاتى ہے اور ہر دو ركعت كے درمیان تشہد اور آخرى تشہد میں اللہ كى حمد و ثنا اور نبى علیہ السلام پر درود پڑھ كر پھر سجدہ كرتے ہیں۔ سجدہ میں سات بار سورۃ الفاتحہ اور سات بار آیۃ الكرسى اور دس بار لا إله إلا اللّٰه وحده لا شریك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدیر پڑھ کرپھر یہ كہتے ہیں: اللّٰه م إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهٰى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة... پھر ہم اپنى ضرورت طلب كرتے اور سجده سے اپنا سر اٹھا كر دائیں بائیں سلام پھیر دیتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے كہ مجھے یہ بتایا گیا ہے كہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں قرآن مجید پڑھنے سے منع كیا ہے، میں نے دورانِ تعلیم اس نمازِ حاجت كا تجربہ بھى كیا تھا تو اللہ تعالىٰ نے میرى دعا قبول فرمائى۔ اب مجھے پھر ایك ضرورت پیش آئى ہے جو میں اللہ سے طلب كرنا چاہتى ہوں، اس كے لیے نماز حاجت ادا كروں یا نہ كروں ، کیا اس کا کوئی خاص فائدہ ہے ؟آپ مجھے كیا نصیحت فرماتے ہیں ؟ جواب:الحمد للہ! نمازِ حاجت كا ذكر چار احادیث میں ملتا ہے، جن میں سے دو احادیث تو موضوع اور من گھڑت ہیں۔ اور ان دو حدیثوں میں سے ایك میں بارہ اور دوسرى حدیث میں دو ركعت كا ذكر ملتا ہے، اور تیسرى حدیث بھى بہت زیادہ ضعیف ہے، اور چوتھى حدیث بھى ضعیف ہے اور ان دونوں حدیثوں میں دو ركعت كا ذكر ہوا ہے۔ 1. پہلى حدیث وہ ہے جس كا سوال میں ذكر كیا گیا ہے اور یہ حدیث عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت كى جاتى ہے كہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: '' تم بارہ ركعتیں دن میں یا رات میں كسى وقت ادا كروا ور ہر دو ركعت میں تشہد پڑھو۔ جب تم اپنى نماز كا آخرى تشہد پڑھو تو اس میں اللہ كى حمد و ثنا بیان كرو اور نبى صلی اللہ علیہ وسلم پر |