تاریخ و سیر مولانا محمد یوسف انور[1] ختم نبوت کی تحریکیں ...آغاز واختتام! علماے اہل حدیث کا سرفہرست کردار ہر سال 7/ستمبر کا دن جب آتا ہے تو 1974ء کے اس روز کے قومی اسمبلی کے فیصلے جس کے مطابق قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا کی مناسبت سے اخبارات و جرائد میں بعض حضرات اس کی تفصیلات قلم بند کرتے ہیں لیکن تعصّب کی بنا پر محض ایک مکتبِ فکر کی خدمات کو تحریر میں لاتے ہیں، جبکہ 7/ستمبر کی تحریکِ ختم نبوت اور اس سے قبل 1953ء کی تحریک ختم نبوت ہی نہیں بلکہ جب سے مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کیا،اسی روزِ اوّل سے اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے علماے اہل حدیث میدانِ عمل میں آ گئے تھے۔ چنانچہ 1. آغا شورش کاشمیری نے اپنی زندگی کی آخری تصنیف'تحریکِ ختم نبوت' میں لکھا ہے : ''مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ وہ پہلے اہل حدیث عالم دین تھے جو قادیانیت کے خلاف میدان میں کودے اور مرزا کو مناظرہ کا چیلنج دیا جو وعدے مواعید کرتا اور تاریخوں پر تاریخیں دیتا رہا لیکن مدِ مقابل آنے سے گریز کرتا رہا۔ بالآخر مولانا محمد حسین اپنے اُستاذِ گرامی قدر میاں نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرزا کے کفر پر اُن سے فتویٰ لیا، پھر تمام مکاتبِ فکر کے ممتاز علما کے پاس جا کر دو صد سے زائد علماے عظام کے اس پر دستخط ثبت کرائے۔''[2] 2. سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر شہرہ آفاق تصنیف 'رحمۃ للعالمین' کے مصنّف قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا غلام احمد قادیانی کی تردید وتکفیر پر 1892ء میں 'غایت المرام' اور 'تائید الاسلام' لکھیں، اس وقت قاضی صاحب کی عمر 25 سال تھی اور وہ سبھی علما |