سے کم عمرتھے، مرزا غلام احمد اُن کی کتابوں کا جواب نہ دے سکا۔ 3. مولانا حافظ محمد ابرا ہیم میر رحمۃ اللہ علیہ سیالکوٹی نے مرزا کے دعویٰ مسیح موعود کے ابطال پر 1904ء میں مرزا کی زندگی میں 'شہادت القرآن' لکھی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفعِ آسمانی کے دلائل دیے گئے لیکن مرزا اِس کا بھی جواب نہ دے سکا جب کہ وہ اس کتاب کی اشاعت کے چار سال بعد تک زندہ رہا۔ 4. حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا غلام احمد کے کہنے پر جنوری 1903ء میں قادیان جا کر اُسے للکارا لیکن اسے سامنے آنے کی اور گفتگو کرنے کی جرأت نہ ہو سکی جس پر تمام مکاتبِ فکر کی طرف سے مولانا امرتسری کو فاتح قادیان قرار دیا گیا۔مولانا امرتسری نے جہاں ہر محاذ پر اسلام کا دفاع کیا اور ہر اُسلوب اور ہر رنگ میں مخالفین کو شکست دی، وہاں اُنہوں نے قادیانیت کا بھی ایک تسلسل کے ساتھ مقابلہ کیا۔ بالآخر مرزا غلام احمد نے 5/ اپریل 1907ء کو ایک اشتہار شائع کیا جس کا عنوان تھا ' مولانا ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ'جس میں اس نے دیگر باتوں کے علاوہ گھبراتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جائے، دنیا نے دیکھا کہ اس اشتہار کے گیارہ ماہ بعد 26/مئی 1908ء کو احمدیہ بلڈنگ برانڈرتھ روڈ لاہور میں مرزا ہیضے کی بیماری میں مبتلا ہو کر بیت الخلا میں مرا، چاہیے تو یہ تھا کہ اگر مرزا سچا تھا تو اسلامی احکامات کے مطابق اسی بیت الخلا میں اسے دفن کیا جاتا لیکن مرزائیوں نے اپنے 'نبی' کو قادیان میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ 5. مولانا محمدحنیف ندوی رحمۃ اللہ علیہ پہلے اہل حدیث عالم دین ہیں جنہوں نے ہفت روزہ 'الاعتصام' لاہور کے 1949ء اور 1950ء کے شماروں میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ انگریز کے آلہ کار مرزائی طبقہ آئے دن ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے ذریعے حکومتیں تبدیل کرتا اور اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی نوزائیدہ مملکت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں لگا ہوا تھا ۔اس سلسلہ میں وزیر خارجہ ظفر اللہ خان کے گمراہ کن بیانات موجود ہیں۔ انہی دنوں چنیوٹ کے قر یب مرزائی بستی ربوہ کی آباد کاری کیلئے سینکڑوں ایکڑ اراضی مختص کی گئی۔ یہی وہ پس منظر تھا کہ 1953ء کی تحریک ختم نبوت شروع ہوئی جس میں اہل حدیث علماے کرام پیش پیش تھے۔ 6. مرکزی مجلس عمل ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمد داود غزنوی تھے، مولانا |