محمد اسماعیل سلفی ، مولانا عبد الرحمٰن آزاد، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا معین الدین لکھوی، مولانا حافظ محمد عبد اللہ روپڑی، مولانا محمد رفیق پسروری، مولانا محمد صدیق فیصل آبادی، روپڑی برادران حافظ محمد اسماعیل و حافظ عبد القادر، مولانا عبد اللہ گورداسپوری ، مولانا حافظ محمد احمد پٹوی جڑانوالہ، مولانا محمد عبد اللہ ثانی، مولانا علی محمد صمصام رحمۃ اللہ علیہم یہ سب علماے عالی قدر اس تحریک کی اگلی صفوں میں تھے۔ کراچی میں علامہ محمد یوسف کلکتوی، قاری عبد الخالق رحمانی رحمۃ اللہ علیہم نے سندھ بھر میں تحریکی جذبہ سے کام کیا اور ان حضرات میں قریبًا سبھی نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 7. ان سطور کا راقم بھی فیصل آباد میں نو عمری کے باوجود مولانا احمد دین گکھڑوی رحمۃ اللہ علیہ اور اپنے والد مرحوم کے ہمراہ کئی روز ڈسٹرکٹ جیل میں رہا۔ مولانا عبد المجید سوہدری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہفت روزہ ' اہل حدیث' میں تحریراً اور چیلنجوں میں تقریرًا خوب کام کیا۔ اس تحریک 1953ء کے بارے میں بعض کالم نگار مولانا مودودی اور مولانا عبد الستار نیازی کو سزائے موت دیے جانے کا تذکرہ بڑے زور وشور سے کرتے ہیں جس کی حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی نے ایک چند صفحات پر مشتمل پمفلٹ 'قادیانی مسئلہ' کے نام سے شائع کیا جس میں اِدھر ادھر سے لے کر مرزا کی کتابوں کی حوالے دیے گئے تھے لیکن مولانا مودودی اپنے پاس مرزا غلام احمد کی کتابیں نہ ہونے کی وجہ سے عدالت میں اُنہیں ثابت نہ کر سکے جس کی پاداش میں اُنہیں سزاے موت سنائی گئی جسے بعد میں چند ماہ کی قید میں بدل دیا گیا۔ مولانا عبد الستار نیازی مسجد وزیر خان لاہور میں تقریر کر کے چھپتے ہوئے نکلے اور داڑھی منڈوا کر ایک دیگ میں بیٹھ کر کہیں مضافات میں نکل جانے کے لیے بیل گاڑی پر سوار ہو گئے لیکن راستے میں پکڑ لیے گئے، ان کی دونوں تصویریں داڑھی کے ساتھ اور بغیر داڑھی کے ساتھ 'پاکستان ٹائمز' کے صفحہ اوّل پر شائع ہوئیں جس سے تحریک کو شدید دھچکا لگا ،اسی بنا پر اُنہیں بھی سزائے موت ہوئی جسےقید میں بدل دیا گیا۔ لیکن اَب مولانا نیازی کو بطور مجاہد ختم نبوت اور بٖڑے بڑے القاب سے یاد کیا جاتا ہے،جب کہ وہ اپنے موقف کو دلائل سے بروقت ثابت نہ کرسکے۔ 8. یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ جب جسٹس منیر پر مشتمل عدالت قائم کی گئی اور مجلس |