یاد رفتگاں ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی علامہ حافظ محمد زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ میرے شیخ ومحسن، مربی، فضیلۃ الاستاذ اور علم حدیث کے ممتاز ماہر، فن اسماء الرجال کے شہ سوار علامہ حافظ محمد زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ دارِفانی سے کوچ کرگئے۔ مٹے ناموں کے نشاں کیسے کیسے زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے!! بروز اتوار،5محرم الحرام 1435ھ/10نومبر 2013ء،ساڑھے نو بجے میرے بیٹے جابر رضی اللہ عنہ نے مجھے دامان (ضلع خٹک) سے فون کیا کہ محترم شیخ حافظ زبیر علی زئی وفات پا گئے ہیں۔ إنا للَّه وإنا إليه راجعون، اللّٰهُمّ أْجُرْني في مصيبتي واخْلُفْ لي خَيرًا مِنْها ''ہم سب اللہ کے ہیں اور ہم نے اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اے اللہ ! تو اس مصیبت میں مجھے اجر عطا فرما اور اُس کا نعم البدل عطا فرما۔'' یہ خبر مجھے ریل گاڑی میں اس وقت ملی جب میں شیخ صاحب کی عیادت کر کے کراچی واپس آ رہا تھا۔ اس خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے۔ والدین کی وفات پر بھی غم واَلم ایک فطری بات ہے لیکن محترم شیخ کے بچھڑنے کا جو غم تھا، وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ موصوف کے دنیا سے رحلت کے بعد ایسا لگا جیسے ہم یتیم ہو گئے۔ علم وعرفان اورعمل کا یہ آفتاب بہت جلد غروب ہو گیا تھا، حالانکہ ابھی ہم نے اُن سے بہت کچھ حاصل کرنا تھا۔ شیخ صاحب ہمارا بہت بڑا سرمایہ تھے اور ہم گھر بیٹھے ہی اُن سے علم کے موتی وجواہرات حاصل کر لیا کرتے تھے۔ افسوس اب وہ ہمارا سہارا ختم ہو گیا اور معلومات حاصل کرنے کا وہ عظیم الشان دروازہ بند ہو گیا۔ علماے کرام کا اس طرح دنیا سے اُٹھ جانا ہمارا بہت بڑا نقصان ہے کہ جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ قیامت کی علامات میں سے ایک بڑی علامت یہ بھی ہے کہ علم اور علماے کرام دنیا |