Maktaba Wahhabi

85 - 95
محمد پھر اتر آئے ہیں قادیان میں جو پہلے سے بڑھ کر ہیں اپنی شان میں محمدجس نے دیکھنے ہوں اکمل وہ غلام احمد کو دیکھے قادیان میں مفتی محمود نے کہا کہ یہ قصیدہ اخبار 'الفضل' کے صفحہ اوّل پر شائع ہوا تھا اور مرزا غلام احمد نے اسے سراہا تھا، مرزا ناصر احمد نے جواب دیا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ 'الفضل' کا اجرا پاکستان بننے کے بعد ہوا تھا۔ اس پر مفتی محمود لاجواب اور پریشان ہوئے۔ جب اُنہوں نے اسمبلی سیشن سے واپس آ کر مولانا حافظ محمدابراہیم کمیر پوری رحمۃ اللہ علیہ سے اس کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ مرزا ناصر صحیح کہتا ہے کہ 'الفضل' کا اجرا تقسیم ملک کے بعد ہی ہوا تھا لیکن تقسیم ملک سے قبل قادیان سے ہفت روزہ 'البدر' شائع ہوتا تھا جس کے صفحہ اوّل پر یہ قصیدہ اشاعت پذیر ہوا تھا۔ حافظ صاحب نے وہ پرانا اور بوسیدہ رسالہ نکالا اور مفتی صاحب کے حوالے کیا، اگلے روز جب مفتی محمود صاحب نے یہ رسالہ ممبران اسمبلی اور مرزا ناصر احمد کو دکھایا اور یہ رباعی بھی اس میں سے پڑھ کر سنائی تو مرزا ناصر احمد کے طوطے اُڑ گئے ، وہ شدید مضطرب اور شرم سار ہوا، مسٹر بھٹو سمیت دیگرممبران اسمبلی نے مرزا ناصر کو بے نقط سنائیں اور کہا کہ ایک نام نہاد مذہبی گروہ کے سربراہ کو یہ سفید جھوٹ زیب نہیں دیتا تھا۔ اب یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ مرزا غلام احمد اپنے دعاوی میں جھوٹا ہے اور اس کی جماعت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اسی طرح کے مزید حوالہ جات سے مرزا ناصر کے جھوٹ کا پول پوری طرح سامنے آیا، نتیجتاً قومی اسمبلی نے 7/ستمبر 1974ء کو ایک تاریخی اور متفقہ قرارداد کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ الغرض مرزا غلام احمد کے کفریہ دعووں سے لے کر تقسیم ملک سے قبل اور بعد کی ختم نبوت کی تحریکوں کے روحِ رواں، اُن کا آغاز کرنے والے اور ان کے اختتام تک بلکہ قادیانیت کو منطقی انجام تک پہنچانے تک علماے اہل حدیث کا کردار اور تگ وتاز سرفہرست رہی جس کا مختصر تذکرہ سطور بالا میں کیا گیا ہے وگرنہ بقول شاعر ورق تمام ہوا او رمدح باقی ہے سفینہ چاہیے اس بحرِ پیکراں کے لیے لیکن کیا کیا جائے تعصّب سے آلودہ عناصر کا ،جو ملمّع سازی کے ذریعے اصل حقائق سے اِغماض برتتے ہیں.... بقول شاعر نیرنگی سیاستِ دوراں تو دیکھیے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے!
Flag Counter