رضوی کو اور سیکرٹری مالیات میاں فضل حق کو بنایا گیا ۔ اس کے اگلے روز ملک بھر میں ہڑتال اور جلسے جلوسوں کا لائحۂ عمل تشکیل پایا۔ ہر ضلع میں مجلس عمل قائم کرنے کی تجویز طے پائی۔ فیصل آباد میں میاں طفیل احمد ضیا (جماعت اسلامی) صدر اور ان سطور کا راقم جنرل سیکرٹری بنائے گئے۔ مولانا صفدر رضوی، مولانا محمد اشرف ہمدانی اور مولانا اللہ وسایا نائب صدر مقرر ہوئے۔ فیصل آباد میں روزانہ عشا کی نماز کے بعد کسی بڑی مسجد میں عظیم الشان جلسہ منعقد ہوتا جس کی صدارت اکثر صاحبزادہ فضل رسول کرتے۔ علما میں سے مقررین کی زیادہ تعداد اہل حدیث علما پر مشتمل ہوتی جن میں مولانا محمد شریف اشرف، مولانا محمد رفیق مدن پور ی، مولانا محمد طیب معاذ اور ان سطور کا راقم شرکت کرتے۔ ہمارے شہر کے اکابر علما مرکزی مجلس عمل میں شرکت کرتے، جلسوں کے ساتھ ساتھ روزانہ کچہری بازار کی جامع مسجد سے عصر کی نماز کے بعد جلوس نکلتا جو گھنٹہ گھر کا چکر لگا کر کچہری بازار سے گول بازار کے چوک میں آ کر اختتام پذیر ہوتا۔ علما اس جلوس کی قیادت کرتے اور تقریریں بھی کرتے۔ فیصل آباد میں ملک کے دوسرے شہروں کی نسبت تحریک زور دار طریقے سے چلائی گئی۔ لاہور میں روزانہ مسجد شہدا مال روڈ سے علامہ احسان الٰہی ظہیر اور حافظ عبد القادر روپڑی کی قیادت میں جلوس نکلتا۔ جون، جولائی اور اگست کے گرم موسم میں یہ گرم تحریک جاری رہی جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے فیصل آباد اور دوسرے شہروں میں تحریک چلانیوالے اور سرگرم علما زیادہ اہلحدیث ہی تھے۔ 10. وزیر اعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اس زبردست عوامی تحریک سے متاثر ہو کر قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد کو قومی اسمبلی میں آ کر اپنا موقف وعقیدہ پیش کرنے اور سوالات وجرح کا جواب دینے کے لیے بلایا۔ اگست کے وسط میں قریباً گیارہ روز تک مرزا ناصر احمد پر اسمبلی کے ممبران جرح کرتے رہے ،ان ممبران میں مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو جامع مسجد اہل حدیث راولپنڈی میں مولانا محمد اسماعیل ذبیح اور مولانا حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری کے پاس آ کر تیاری کرتے کیونکہ مرزا غلام احمد کی کتب انہی علماے اہل حدیث کے پاس تھیں۔ ایک دن مفتی محمود نے مرزا ناصر سے کہا کہ مرزا غلام احمد کے سامنے ان کی مدح وستائش میں اکمل نامی شاعر نے ایک قصیدہ پڑھا جس میں یہ اشعار تھے: |