اور شہر بن حوشب وغیرہم۔ اور بعض حدیث بیان کرنے والوں پر بلاوجہ بھی کلام کیا گیا ہے اور موجودہ دور میں ان کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے چنانچہ اس سلسلہ میں شیخ موصوف کے مقالات کی طرف رجوع ضروری ہے۔ احادیث کی تصحیح وتضعیف میں فن تدلیس کا بھی بہت کردار ہے۔ محترم شیخ نے اس سلسلہ میں بہت سے مقالات تحریر فرمائے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی راوی اگر 'مدلس' ہے اور وہ کسی روایت کو عن سے بیان کر رہا ہے تو جب تک کسی دوسری روایت میں اس راوی کے سماع کی تصریح نہیں مل جاتی تو صحیحین کے علاوہ دوسری کتب میں نقل کردہ ایسی روایات ضعیف مانی جائیں گی اور اس بات کی وضاحت اُصولِ حدیث کی کتب میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ بلکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی راوی نے ایک ہی مرتبہ تدلیس کی ہو گی تو اس راوی کی روایت بھی سماع کی تصریح کے بغیر قبول نہیں کی جائے گی اور اس روایت کو ضعیف ہی مانا جائے گا۔ اورصحیحین کی روایات میں مدلسین کا عنعنہ قابل قبول ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے وہ معنعن روایات ذکر کی ہیں کہ جن کے سماع کی تصریح دوسرے مقام پر موجود ہوتی ہے۔ اوراس فن پر جن لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں، اُنہوں نے وہاں اس کے ثبوت پیش کردیے ہیں۔ اس سلسلہ میں بعض لوگوں نے بڑی فاش غلطیاں بھی کی ہیں اور کسی جگہ بعض رواۃ کی روایات کو تو ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض راویوں کی روایات کو صحیح قرار دے ڈالا ہے حالانکہ وہ رواۃ بھی مدلسین میں شامل ہیں۔ محترم شیخ نے احادیث کی تصحیح وتضعیف میں اُصولوں کی زبردست پابندی کی ہے اور اس سلسلہ میں اُنہوں نے خوب مطالعہ کرنے کے بعد ہی احادیث کی تصحیح وتضعیف کا کام کیا ہے۔ بعض لوگوں نے دو چار ضعیف احادیث کو ذکر کر کے اور ضعیف+ ضعیف+ ضعیف ذکر کر کے اس حدیث کو صحیح قرار دے ڈالا ہے۔ شیخ موصوف کا اُصول یہ ہے کہ کسی ضعیف روایت کے کتنے ہی ضعیف شواہد کیوں نہ ہوں، وہ حدیث اصلاً ضعیف ہی مانی جائے گی اور وہ اس و قت تک صحیح تسلیم نہیں کی جائے گی جب تک کہ اس کا کوئی صحیح شاہد نہ مل جائے ۔ اس بحث کو مقالات |