شیخ صاحب کے اُستاد، استاذ العلما شیخ محترم حافظ عبد المنان نورپوری رحمۃ اللہ علیہ پر بھی اسی طرح فالج کا اٹیک ہوا تھا اور وہ بھی کئی دنوں تک شیخ زید ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل تھے اور بے ہوش تھے اور اُن کو بھی اسی طرح نلکیاں لگی ہوئی تھیں۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ یہ دونوں علما جو آپس میں اُستاد وشاگرد کے رشتہ میں منسلک تھے، ایک ہی طرح کی بیماری میں مبتلا ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ دوسرے دن میں حافظ شیر محمد صاحب کے ہمراہ پیرداد حضرو پہنچا، جو شیخ صاحب کا آبائی گاؤں ہے۔ و ہاں شیخ صاحب کے والد محترم مجدد خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اُن کی عمر اس وقت 100 سے تجاوز کر چکی ہے۔ حافظ شیر محمد صاحب نے مجھے خطبہ جمعہ کا کہا۔ چنانچہ میں نے وہاں خطبہ جمعہ دیا اور وہاں آئے ہوئے دوستوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ شیخ صاحب کے لیے خطبہ جمعہ اور نمازِ جمعہ میں قنوتِ نازلہ میں بھی دعائیں کی گئیں۔ اس کے بعد میں اپنے گاؤں چلا گیا اور بدھ کے دن دوبارہ شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، محترم شیخ صاحب بدستور بے ہوش تھے۔ لگتا تھا کہ وادی چھچھو کا یہ شیر گہری نیند سو چکا ہے۔ میں نے پہلے کی طرح دم ودعا کا سلسلہ جاری رکھا۔ کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ سرگودھا سے مولانا سید محمد سبطین شاہ نقوی حفظہ اللہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تشریف لا رہے ہیں۔ چنانچہ ان علماے کرام سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ دوسرے دن بروز جمعرات میں گوجرانوالہ روانہ ہو گیا، جہاں مجھے مولانا صفدر عثمانی حفظہ اللہ کی مسجد میں جمعہ پڑھانا تھا۔ جمعہ کی رات کو بعد نمازِ عشا فضیلۃ الشیخ محترم ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا خطاب تھا۔ شیخ صاحب کے خطاب سے پہلے میں نے عذابِ قبر کے موضوع پر مختصر بیان کیا۔ شیخ موصوف نے رافضیت پر اپنا علمی مقالہ پیش کیا ۔ نمازِ جمعہ کے بعد میں لاہور روانہ ہو گیا اور رات کو مولانا ارشد کمال کے ہاں قیام کیا۔ اُنہوں نے بروز ہفتہ 9نومبر کا ٹکٹ لے رکھا تھا چنانچہ بروز ہفتہ میں کراچی روانہ ہو گیا۔ دوسرے دن مجھے تقریباً ساڑھے نو بجے یہ خبر ملی کہ کہ محترم شیخ وفات پا گئے ہیں۔ میں 11 بجے اپنے گھر پہنچا اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے معلومات حاصل کیں۔ لیکن اتوار کی وجہ سے تمام ٹکٹ بک ہو چکے تھے۔ میں افسوس ہی کرتا رہ گیا کہ کاش میں وہیں ہوتا اور شیخ |