Maktaba Wahhabi

88 - 95
کراچی روانہ ہو گیا۔ جب ہم کراچی سے تھوڑے فاصلے پر تھے تو مجھے ایک میسج آیا جس نے مجھے سخت پریشان کر دیا۔ اس میسج میں تھا کہ شیخ صاحب پر فالج کا اٹیک ہو گیا ہے اور اُنہیں سرگودھا کے ہسپتال میں داخل کر ا دیا گیا ہے۔ اس خبر سے مجھے سخت دھچکا لگا اور ہم نے شیخ صاحب کے لیے دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شیخ صاحب کو اسلام آباد کے 'الشفا ہسپتال' میں منتقل کر دیا گیا ہے اور وہاں اُن کے دو آپریشن بھی ہوئے۔ اس دوران ملک کے طول وعرض میں دعاؤں کا سلسلہ جاری وساری ہو گیا۔ خطباتِ جمعہ اور نمازوں میں بھی دعائیں ہوتی رہیں۔ میرا دل بے تاب تھا کہ کب شیخ صاحب سے ملاقات ہو گی؟ چنانچہ میں 31 اکتوبر 2013ء کو خیبر میل کے ذریعے راولپنڈی پہنچ گیا اور وہاں سے اسلامک ریسرچ کونسل سنٹر میں کچھ دیر قیام کیا، پھر حافظ شیر محمد صاحب کے ذریعے جنرل ہسپتال راولپنڈی پہنچا اور اس وقت شیخ صاحب آئی سی یو میں داخل تھے اور اُنہیں نلکیاں لگی ہوئی تھی اور وہ بے ہوش تھے۔ اگرچہ شیخ صاحب کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی لیکن ہوش وحواس میں نہ تھے۔ میں نے شیخ صاحب سے بات کرنے کی کوشش کی اور اُنہیں چھوا ، آواز دی لیکن بے سود پھر اُنہیں دم کرنے لگا۔ اس سلسلہ میں سنن ابو داؤد کی ایک روایت بھی میرے پیش نظر تھی جس میں آتا ہے کہ اگر ان کلمات کو مریض کے سرہانے پڑھا جائے تو اللہ تعالیٰ اس مریض کو ضرور شفا دیتا ہے، سوائے موت کے (کہ موت کو کوئی نہیں روک سکتا) وہ کلمات یہ ہیں: ((اسـأل اللّٰه العظيم رب العرش العظيم أن يشفيك)) ''میں اللہ عظیم سے سوال کرتا ہوں جو عرشِ عظیم کا ربّ ہے کہ وہ آپ کو شفا عطا فرمائے۔'' رات کو میں دوبارہ شیخ صاحب کے پاس آیا اور اُن کا دیدار کرتا رہا اور اس اُمید پر اُنہیں دوبارہ دم کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت وتندرستی عطا فرمائے۔اور یہ دعا بھی کرتا رہا کہ اے اللہ ! ہمارے شیخ کو صحت وتندرسی عطا فرما دے۔ اے اللہ ! شیخ ہمارے لیے بہت بڑا سہارا ہیں،ان کی رہنمائی کے بغیر ہم بالکل بے سہارا ہو جائیں گے۔ اے اللہ ! ان کو جلد صحت وعافیت عطا فرما۔
Flag Counter