اس آیت نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ شیطان انسان کو جسمانی نقصان پہنچاتا ہے اور اسے مخبوط الحواس بنا دیتا ہے اور انسان دیوانوں کی طرح بے تُکی باتیں اور حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خبط اور مرگی صرف شیطان کے چھونے سے ہی ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں یہ عنوان (اس شخص کی فضیلت جو رِیح کی وجہ سے لڑکھڑاتا ہوا گرجاتا اور بے ہوش ہوجاتا ہے) قائم کرکے اس سیاہ فام عورت کا قصّہ بیان کرتے ہیں جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس آئی اور درخواست کرنےلگی کہ اے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں بے ہوش ہوکر گرپڑتی ہوں او ربے پردہ ہوجاتی ہوں ، لہٰذا میرے لئے اللہ سے دعا کیجئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو صبر کرے تو تیرے لیے جنت ہے اگر تو چاہے میں دعا کردیتا ہوں۔ اس نےکہا: میں صبر کرتی ہوں، البتہ یہ دعا ضرور کریں کہ میں بے پردہ نہ ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرما دی۔[1] امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ بسا اوقات ہوا کا بدن کے کسی حصے میں رُک جانا بھی مرگی کا سبب بن جاتا ہے۔ اور وہ اعضاے رئیسہ کو اپنے افعال مکمل طور پر سرانجام دینے سے روک دیتا ہے اور بسا اوقات اس سے اعضاے انسانی میں تشنج ہوجاتا ہے اور انسان اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا بلکہ وہ گر پڑتا ہے اور گاڑھی رطوبات کی وجہ سے اس کے منہ سے جھاگ بہنے لگتا ہے ۔[2] دماغ اور اعصاب کی بیماریوں پر جدید طبّی تحقیقات نے مرگی کے بہت سے اسباب بھی دریافت کرلیے ہیں۔ان میں سے ایک سبب دماغ کی برقی رو کا درہم برہم ہونا بھی ہے اور دماغی نظام کی خرابی، اعضاے بدن پر بھی اثر انداز ہوتی ہے،چنانچہ اب اس مرض کا تدارک کرنے کے لئے ایسی اَدویات بھی تیار ہوچکی ہیں جو باذن اللہ شفا کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مرگی کی دو قسمیں ہیں: ایک تو خبیث زمینی اَرواح (شیاطین )کے اثر سےہوتی ہے۔اور دوسری خراب خلطوں (مثلاً صفرا، بلغم، خون ، سوداء) کی وجہ سے ہوتی ہے ،طبیب حضرات اس دوسری قسم کی تشخیص کرکے اس کا علاج کرتے ہیں اور خبیث اَرواح کے سپیشلسٹ اور عقلا ان کے |