لئے علاج بھی جائز ہے۔ البتہ بیماری یا آسیب یا نظر بد سے بچنے کے لئے تمائم(تعویذ دھاگے) لٹکانا جائز نہیں، کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے اس سے منع فرمایا ہےلہٰذا ان سے بچنا واجب ہے، کیونکہ یہ شرک اصغر ہے۔[1] علاج معالجہ کے احکام فقہاے کرام کے درمیان مباح چیزوں سے علاج کرانے میں شروع سے اختلاف منقول ہے۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مباح چیز سے علاج کرانا تقریباً واجب ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مستحب ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بن انس کے نزدیک علاج کرانا، نہ کرانا برابر ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک علاج کرانا مباح ہے اور نہ کرانا افضل ہے۔ البتہ حرام چیزوں سے علاج کرانا جمہور ائمہ کے نزدیک حرام ہے ،کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ((إن اللّٰه لم يجعل شفاء كم فيما حرّم عليكم)) [2] ''اللہ نے تمہاری شفا ان چیزوں میں نہیں رکھی جو تم پر حرام ہیں ۔'' امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ''اہل علم نے اس باب میں اختلاف کیا ہے کہ علاج معالجہ مباح ہے؟ مستحب یا واجب؟ اور تحقیق یہ ہے کہ کچھ چیزوں سے علاج معالجہ حرام ہے اور کچھ سے مکروہ اور کچھ سے مستحب ہے اور پھر بعض صورتوں میں علاج معالجہ واجب ہے اور یہ اس صورت میں جب یقین ہوجائے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں مثلاً اضطراری حالت میں مُردار کا کھا لینا واجب ہے، کیونکہ ایسی صورتِ حال میں ائمہ اربعہ اور جمہور علما کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے۔''[3] میڈیکل علاج کے بارے میں 'اسلامی فقہی بورڈ' نے اپنے اجلاس منعقدہ مؤرخہ 1412ھ بمقام جدّہ سعودی عرب میں قرارداد نمبر 5/5/68 پاس کی جس کا مفہوم یہ ہےکہ ''علاج معالجہ اصلاً مشروع ہے ،کیونکہ اس کے متعلق قرآنِ کریم اور سنّتِ قولیہ وفعلیہ |