اندوز ہونے کی صلاحیت کو محفوظ رکھنے کی غرض سے موذیات اور مؤلمات کا علاج مطلقاً جائز ہے بلکہ کسی موذی اور مؤلم و با سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے کی بھی شرع میں اجازت ہے۔ اگرچہ وہ ابھی واقع نہ بھی ہوئی ہو، تاکہ انسان کی تخلیق کے مقصد کی تکمیل ہو، اور اس کی طرف پُرخلوص توجہ کی تکمیل کی نگہداشت ہو اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت عافیت کے شکریے کا فریضہ ادا ہو،مثلاً موسم سرما یا گرما کے آنے سے قبل اور بھوک یا پیاس لگنے سے پہلے اُن کے تکلیف دہ اثرات سے بچنے کی تدابیر کرنا اور بیماریوں کے پھیلنے سے قبل حفاظتی اقدامات کرنا او رہر موذی چیز سے بچاؤ کا سامان کرنا اور اس دنیا میں سعادت مند زندگی بسر کرنے کی غرض سے متوقع نقصان دہ چیزوں سے بچنے اور متوقع نفع مند چیزوں کے حصول کے اقدامات کرنا۔''[1] سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے بیماری کے نازل ہونے سے پہلے حفاظتی قطرے یا حفاظتی اَدویات کے استعمال کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: '' وَبا یا دیگر اسباب کی وجہ سے بیماریاں در آنے کے خطرے کےپیش نظر علاج معالجہ کرانے یا دوا کھانے میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من تصبّح بسبع تمرات من عجوة لم يضره سمّ ولا سحر)) [2] ''جس شخص نے صبح سویرے سات عجوہ کھجوریں کھا لیں، اسے جادو اور زہر نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔'' یہ اقدام بیماری کے رونما ہونے سے قبل پرہیز و بچاؤ کے قبیل سے ہے۔ اسی طرح جب کسی بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو اور کسی شہر یا ملک میں وبائی مرض پھیلا ہوا ہو تو اُس کے دفیعہ کی غرض سے اینٹی بائیوٹک کھانے میں کوئی ممانعت نہیں اور جس طرح مریض کو لاحق ہونے والی بیماری کا علاج جائز ہے، اسی طرح متوقع بیماری سے بچنے کے |