Maktaba Wahhabi

63 - 95
مملکتِ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم جناب عبداللہ بن عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اس حدیث نبوی سے ترکِ علاج ومعالجہ پر استدلال کرتا ہے کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِى سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ ». قَالُوا مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ «هُمُ الَّذِينَ لاَ يَسْتَرْقُونَ وَلاَ يَتَطَيَّرُونَ وَلاَ يَكْتَوُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ)) [1] '' امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ستر ۷۰ ہزار آدمی بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم کرواتے ہیں ، نہ علاج کی غرض سے اپنے جسم کو داغتے ہیں اور نہ فال نکالتے ہیں، بلکہ وہ صرف اپنے پروردگار پر ہی توکل کرتے ہیں۔'' تو انھوں نے جواب دیاکہ ان ستر ہزار مومنین نے صرف مندرجہ بالا چیزوں کو ترک کیا ہو گا ،یہ نہیں کہ انھوں نے اسبابِِ شفا ہی ترک دیے ہوں گے، کیوں کہ آپ نے ضرورت پڑنے پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سینگی لگوائی۔ اس لیے کہ سینگی لگوانے میں کوئی کراہت نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک جائز طریق علاج ہے۔ اس طرح دیگر طرقِ علاج بذریعہ انجکشن، سیرپ، گولیاں وغیرہ جائز ہیں۔ شيخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب انسان یہ اعتقاد رکھے کہ اسباب محض اسباب ہی ہیں اور اللہ کی مرضی کے بغیر اُن میں تاثیر نہیں آسکتی تو اسباب کا بروئے کار لانا توکل کے منافی نہیں ہے۔ اس بنا پر انسان کا کوئی چیز پڑھ کر اپنے آپ کو یا اپنے کسی بھائی کو دم کرنا توکل کے برخلاف نہیں ہے کیونکہ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم معوّذات پڑھ کر اپنے آپ کو بھی دم کرتے تھے او راپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی ۔ واللہ اعلم! بیماری سے بچاؤکے لئے احتیاطی علاج و معالجہ امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ مؤلمات اور موذیات کے بارے میں گفتگو کرتےہوئے فرماتے ہیں: ''شریعتِ اسلامیہ کے مجموعی مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ انسان کو لاحق ہونے والی مشقت کو ہٹانے اور شریعت میں جائز قرار دی جانے والی نعمتوں سے لطف
Flag Counter