Maktaba Wahhabi

62 - 95
کوئی نہ کوئی حکمت ہے اور وہ حکمت کے اعتبار سے خیر ہے ،مثلاً اللہ نے بچھو جیسی زہریلی مخلوق کو پیدا کیا جو بظاہر مجسمہ شرّ ہے لیکن امام ابن جوزی 'صید الخاطر' میں لکھتے ہیں کہ ''اگر اسے مٹّی کے کوزے میں گلِ حکمت کرکے ہلکی آنچ میں جلا کر راکھ بنا لیا جائے اور وہ راکھ جَو برابر گردے کی پتھری والے مریض کو کھلا دیا جائے تو پتھری ریزہ ریزہ ہوکر خارج ہوجاتی ہے اور اگر یہ فالج زدہ مریض کو ڈس لے تو اللہ کے اِذن سے مریض شفا یاب بھی ہوسکتا ہے۔''[1] البتہ ایسی اشیا ءمیں بعض لوگوں کے لئے بسا اوقات شر ہوتا ہے ،لیکن وہ اضافی اور جزئی شر ہے، مطلق اور کلّی شر نہیں ہوتا۔ لہٰذا شریعت میں اَمراض اور امراض کا سبب بننے کے دفیعہ کی اجازت ہے تاکہ انسان اللہ کے حکم سے شفایاب ہوکر اُس کی نعمتوں سے اس کے حکم کے مطابق لُطف اندوز ہوسکے۔ علاج معالجہ توکل علیٰ اللہ کے منافی نہیں ! قدوۃ السالکین و رئیس المحققین امام ابن قیم دمشقی رحمۃ اللہ علیہ ' زاد المعاد' میں فرماتے ہیں: ''صحیح احادیث میں علاج معالجے کا حکم موجود ہے اور جس طرح بھوک اور پیاس دور کرنے اور سردی و گرمی سے بچنے کے لئے دوڑ دھوپ کرنا توکل کے منافی نہیں ہے اس طرح بیماری کا علاج کرانا بھی توکل علیٰ اللہ کے منافی نہیں ہے بلکہ اس وقت تک حقیقتِ توحید مکمل نہیں ہوتی جب تک انسان شرعاً و تقدیراً ان اسباب کو بروئے کار نہ لائے جنہیں اللہ نے اُس کی ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے اور ان اسباب کو اختیار نہ کرنا، حقیقت توکّل سے پہلوتہی کرنا ہے اور یہ علاج معالجے کے حکم کو جھٹلانے اور اس کی حکمت کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔ علاج معالجہ کرانے کے حکم میں ان لوگوں کا ردّ ہے جو کہتے ہیں کہ اگر مقدر میں شفا لکھی ہے تو علاج کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر مقدر میں شفا نہیں تو بھی علاج کا کوئی فائدہ نہیں۔''[2]
Flag Counter