سے دلائل موجود ہیں اور یہ اس وجہ سے بھی مشروع ہے کہ اس عمل سے انسانی جان کی نگہبانی ہوتی ہے جو شریعتِ مطہرہ کے مقاصدِ کلیہ میں سے ایک نمایاں مقصد ہے۔ اور اشخاص واحوال کے اختلاف کے مطابق علاج معالجے کے احکام بدلتے رہتے ہیں چنانچہ جس مرض سے جان کی ہلاکت یا اس کے کسی عضو کی خرابی یا اس کے مفلوج ہونے کا اندیشہ ہو یا متعدی امراض کی طرح اس مرض کا اثر دیگر لوگوں تک منتقل ہونے کا خطرہ ہو تو اس کا علاج کرنا کرانا واجب ہے۔ اور جس مرض کے علاج نہ کرانے سے بدن کے کمزورہونے کا اندیشہ ہو اور مذکورہ بالا خطرات نہ ہوں تو اس کا علاج کرنا کرانا مستحب ہے اور جب مذکورہ بالا دونوں صورتیں (جان کی ہلاکت یا بدن کی کمزوری) نہ ہوں تو علاج کرنا کرانا جائز ہے۔'' اور جب کسی مرض کے علاج کی وجہ سے اس سے بدتر مرض کے در آنے کا خطرہ ہو تو اس کا علاج کرنا کرانا مکروہ ہے۔ امام ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ 1. جس مرض کے علاج سے شفا کا ظن غالب ہو اور علاج نہ کرانے سے ہلاکت کا احتمال ہو تو اس کا علاج کرانا واجب ہے۔ 2. جس مرض کے علاج سے ظن غالب کےمطابق نفع ہو اور علاج نہ کرانے سے ہلاکت یقینی نہ ہو تو اس مرض کا علاج کرانا افضل ہے۔ 3. جس مرض کے علاج سے شفا او رہلاکت کے خدشات برابر ہیں تو اس کا علاج نہ کرانا افضل ہے تاکہ انسان لاشعوری طور پر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال بیٹھے۔[1] غیرمسلموں سے علاج معالجہ کرانا امام ابن عثیمین مزید فرماتے ہیں کہ ''مسلمان مرد یا عورت کا بغیر کسی مجبوری کے یہودی یا عیسائی ڈاکٹر سے علاج کرانامکروہ ہے ،کیونکہ وہ ناقابل اعتبار ہے اور اللہ نے اُن کو خائن بتایا ہے تو ہم کیوں اُنہیں امین سمجھیں۔ چنانچہ دو شرطوں کے بغیر غیر مسلموں سے علاج کرانا ناجائز ہے۔ ایک تو یہ کہ کوئی واضح مجبوری ہو ، دوسرا یہ کہ ان کی فریب کاری کا اندیشہ نہ ہو۔''[2] |