Maktaba Wahhabi

58 - 95
كرتا، بعض اوقات انسان كوئى تجربہ كرتا ہے اور اسے اس كا مقصود حاصل ہو جاتا ہے تو یہ اس كے متعلق جو كچھ كہا گیا یا جو وارد ہوا ہے اس كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا، كیونكہ ہو سكتا ہے اس كا حصول قضا و قدر سے ہوا ہو، یا پھر فاعل كے لیے ابتلا و امتحان ہو، تو كسى چیز كا ہو جانا اس كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا۔''[1] نمازِ حاجت کے متعلق ایک اور فتویٰ سوال: میرا سوال نماز حاجت كے متعلق ہے۔ یہ كتنى بار ادا كرنى چاہیے، اور اس كى ادائیگی كب ممكن ہے؟ كیا نمازِ حاجت اس وقت ادا كى جائے جس میں دعا كى قبولیت متوقع ہو ؟ جواب: مسلمان كے لیے مشروع یہ ہے كہ وہ اللہ تعالى كى عبادت اس طرح كرے جو اللہ تعالى نے كتاب اللہ میں مشروع كى ہے، اور نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اور اس لیے بھى كہ عبادت توقیفی ہوتى ہے، جس میں كوئى كمى و بیشى نہیں ہو سكتى۔ اور اس لیے كسى بھى عبادت كے متعلق نہیں كہا جا سكتا كہ یہ عبادت مشروع ہے، لیكن جب صحیح دلیل ہو تو مشروع كہا جا سكتا ہے۔جسے نماز حاجت كے نام سے موسوم كیا جاتا ہے، ہمارے علم كے مطابق یہ ضعیف اور منكر قسم كى احادیث میں وارد ہے، جن احادیث سے كوئى حجت اور دلیل نہیں لى جا سكتى، اور نہ ہى عمل كرنے كے لیے ان احادیث كو دلیل بنایا جا سكتا ہے۔[2] نماز حاجت كے متعلق حدیث یہ ہے جوعبد اللہ بن ابى اوفى اسلمى رضی اللہ عنہ بیان كرتے ہیں: ''ہمارے پاس رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور فرمانے لگے:جس كسى كو اللہ تعالىٰ یا كسى مخلوق كے سامنے ضرورت اور حاجت ہو تو وہ شخص وضو كر كے دو ركعت ادا كرے اور پھر یہ كہے: لا إِلَهَ إِلا اللّٰه الْحَلِیمُ الْكَرِیمُ سُبْحَانَ اللّٰه رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِلَّه رَبِّ الْعَالَمِینَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِیمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ أَسْأَلُكَ أَلا تَدَعَ لِي ذَنْبًا إِلا غَفَرْتَهُ وَلا هَمًّا إِلا فَرَّجْتَهُ وَلا حَاجَةً هِی لَكَ رِضًا إِلا قَضَیتَهَا لِي[3]
Flag Counter