''اللہ تعالىٰ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، وہ حلیم و كریم ہے، اللہ تعالىٰ پاك ہے، جو عرشِ عظیم كا رب ہے۔ سب تعریفات اللہ ربّ العالمین كے لیے ہیں، اے اللہ میں تیرى رحمت كو واجب کرنے والى اشیا كا طالب ہوں اور تیرى مغفرت كا، اور ہر نیكى كى غنیمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى۔ اے اللہ میں تجھ سے سوال كرتا ہوں كہ میرے سارے گناہ معاف كر دے، اور سارے غم اور پریشانیاں دور كر دے، اور جس حاجت میں تیرى رضا ہے وہ میرے لیے پورى كر دے۔پھر دنیاوى اور آخرت كے معاملات سے جو چاہے سوال كرے، اسے دیا جائے گا۔'' امام ترمذى رحمۃ اللہ علیہ كہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اس كى سند میں كلام ہے کیونکہ فائد بن عبد الرحمٰن کی حدیث میں ضعف بیان كیا جاتا ہے اور علامہ البانى رحمۃ اللہ علیہ كہتے ہیں کہ یہ ضعیف جدا ہے۔امام حاكم رحمۃ اللہ علیہ كہتے ہیں: فائد بن عبد الرحمٰن نے ابو اَوفى سے موضوع احادیث روایت كى ہیں۔[1] صاحب 'السنن و المبتدعات' نے فائد بن عبد الرحمٰن كے متعلق امام ترمذى رحمۃ اللہ علیہ كا كلام نقل كرنے كے بعد كہا ہے: ''اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ كا كہنا ہے كہ یہ متروك ہے اور ابن العربى رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف كہا ہے۔اور اُن كا كہنا ہے:آپ كو اس حدیث میں جو گفتگوہے ،اس كا علم ہو چكا ہے، اس لیے آپ كے لیے افضل ، بہتر اور سلیم یہى ہے كہ آپ رات كے آخرى پہر اور اذان اور اقامت كے درمیان اور نمازوں میں سلام سے قبل اور جمعہ كے روز دعا كریں كیونكہ یہ دعا كى قبولیت كے اوقات ہیں، اور اسى طرح روزہ افطار كرنے كے وقت۔اور پھر آپ كے پروردگار جل شانہ كا فرمان ہے:''تم مجھ سے دعا كرو میں تمہارى دعا قبول كروں گا۔'' اور ایك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالىٰ ہے: ''اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال كریں تو اُنہیں كہہ دیں یقیناً میں قریب ہوں، دعا كرنے والے كى دعا كو قبول كرتا ہوں جب وہ مجھے پكارتا ہے۔'' اور ایك مقام پر اس طرح فرمایا: ''اور اللہ كے لیے اچھے اچھے نام ہیں، تم اسے ان ناموں سے پكارو۔''[2] |