ہیں، اللہ على وعظیم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، اللہ حلیم و كریم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، آسمان و زمین اور عرش عظیم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالىٰ پاك ہے، سب تعریفات اللہ رب العالمین كے لیے ہیں، اے غموں كو دور كرنے والے، اور پریشانیوں كو دور كرنے والے، مجبور و لاچار كى دعا كو قبول كرنے والے، دنیا و آخرت كے رحمن اور دونوں كے رحیم، میرى اس حاجت و ضرورت میں مجھ پر رحم فرما كر اس ضرورت كو پورا كر اور مجھ پر ایسى رحمت فرما جو مجھے تیرى رحمت كے علاوہ باقى سب سے مستغنى كر دے۔'' علامہ البانى رحمۃ اللہ علیہ نے اسے الترغیب : 417 میں ضعیف قرار دیا اور كہا ہےکہ اس كى سند مُظلم یعنی اندھیرى ہے، نیز اس میں ایسے رُواۃ ہیں جو معروف نہیں ۔ خلاصہ یہ ہوا كہ اس نماز كے متعلق كوئى حدیث صحیح نہیں، اس لیے مسلمان شخص كے لیے یہ نماز ادا كرنا مشروع نہیں، بلكہ اس كے مقابلہ میں جو صحیح احادیث میں نمازیں اور دعائیں اور اذكار ثابت ہیں وہى كافى ہیں۔ دوم:سوال كرنے والى محترمہ كا یہ كہنا كہ میں نے اس كا تجربہ كیا ہے اور اسے فائدہ مند پایا ہے۔ اس كے علاوہ بھى كئى لوگ ایسى بات كر چكے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اس طرح كے اقوال اور تجربات سے شریعت ثابت نہیں ہوتى اور كوئى امر مشروع نہیں ہو جاتا۔ علامہ شوكانى رحمۃ اللہ علیہ كہتے ہیں: ''صرف تجربہ كى بنا پر ہى سنت ثابت نہیں ہو جاتى اور نہ ہى دعا كى قبولیت اس پر دلالت كرتى ہے كہ قبولیّت كا سبب رسولِ كریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالىٰ تو سنّت كے علاوہ كسى اور چیز كے توسّل سے بھى دعا قبول فر لیتا ہے، كیونكہ اللہ ارحم الراحمین ہے، اور بعض اوقات دعا كى قبولیت بتدریج ہوتى ہے ۔''[1] اور شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہیں: '' اور جو یہ ذكر كیا گیا ہے كہ فلان شخص نے اس كا تجربہ كیا تو اسے صحیح پایا، اور فلان نے بھى تجربہ كیا تو اسے صحیح پایا، یہ سب اس حدیث كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں |