وآخر وقت ذبح الأضحية آخر أيام التشريق[1] ''قربانی کا آخری وقت تشریق کا آخری دن ہے۔'' 6. امام ابن قیم رحمۃاللہ علیہ (م751ھ) نے کہا: وقدقال علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنه : أيام النحر : يوم الأضحيٰ ، وثلاثة أيام بعده ، وهو مذهب إمام أهل البصرة الحسن ، وإمام أهل مكة عطاء بن أبي رباح ، وإمام أهل الشام الأوزاعي ، وإمام فقهاء الحديث الشافعي رحمه اللّٰه ، واختاره ابن المنذر ، ولأن الثلاثة تختص بكونها أيام منى، وأيام الرمي ، وأيام التشريق ، ويحرم صيامها، فهي إخوة في هذه الأحكام ، فكيف تفترق في جواز الذبح بغير نص ولا إجماع ، وروي من وجهين مختلفين يشد أحدهما الآخر عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أنه قال :((كل منى منحر، وكل أيام التشريق ذبح)) [2] ''اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: قربانی کے دن: عید کا دن اور اس کے بعد تین دن ہیں اور اہل بصرہ کے امام حسن بصری رحمۃاللہ علیہ اور اہل مکہ کے امام عطا بن ابی رباح اور اہل شام کے امام اوزاعی کا یہی موقف ہے اور یہی فقہائے اہل الحدیث کے امام شافعی رحمۃاللہ علیہ کا موقف ہے اور اسے ہی امام ابن المنذر نے اختیار کیا ہے اور پورے ایام تشریق یہ مخصوص ہیں منیٰ کے دن ہونے میں، رمی کے دن ہونے میں اور ان دنوں کا روزہ حرام ہے، پس جب یہ تینوں دن ان تمام احکام میں برابر ہیں تو پھر قربانی کے حکم میں کیسے الگ ہو جائیں گے (کہ کسی دن قربانی جائز ہو اور کسی دن ناجائز)۔ جبکہ الگ ہونے پر نہ کوئی نص شرعی پائی جاتی ہے اور نہ ہی اجماعِ اُمت، بلکہ اس کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد روایات آئی ہیں جن سے پورے ایام تشریق میں قربانی کا ثبوت ملتا ہے۔'' 7. امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ (م 774ھ) نے کہا: وأن الراجح في ذلك مذهب الشافعي رحمه اللّٰه ، وهو أن وقت |