بایں الفاظ میں فرماتے ہیں: ولأن الثلاثة تختص بكونها أيام منى، وأيام الرمي وأيام التشريق، ويحرم صيامها، فهي إخوة في هذه الأحكام فكيف تفترق في جواز الذبح بغير نص ولا إجماع... وروي من وجهين مختلفين يشد أحدهما الآخر عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أنه قال: «كل منى منحر، وكل أيام التشريق ذبح»[1] '' بے شک ایام تشریق قربانی کے دن ہیں کیونکہ یہ مخصوص ہیں منیٰ کے دن ہونے میں، رمی کے دن ہونے میں اور ان دنوں کا روزہ حرام ہے، پس جب یہ تینوں دن ان تمام احکام میں برابر ہیں تو پھر قربانی کے حکم میں کیسے الگ ہو جائیں گے۔ (کہ کسی دن قربانی جائز ہو اور کسی دن ناجائز) جبکہ الگ ہونے پر نہ کوئی نص شرعی پایا جاتا ہے اور نہ ہی اجماعِ امت، بلکہ اس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد روایات آئی ہیں جن سے پورے ایام تشریق میں قربانی کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔'' چار دن قربانی کے مشروعیت پر دلالتِ لغت محترم ڈاکٹر محمد مفضل مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں ''مذکورہ دلائل کےعلاوہ 'ایام تشریق' کی وجہ تسمیہ بھی 13 ذو الحجہ کے جواز پر دلالت کرتی ہے چنانچہ علامہ ابن حجر فتح الباری(4/242) میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں : وسميت أيام التشريق لأ لحوم الاضاحى تشرق فيها أي تنشر فى الشمس وقيل لأن الهدى لاينحر حتى تشرق الشمس[2] ''ان تینوں دنوں (11،12،13)کو ایام تشریق اس لیے کہا جاتاہے کہ ان دنوں میں قربانی کے گوشت کودھوپ میں سوکھنے کےلیے پھیلایا جاتا ہے نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ چونکہ قربانی کے جانور سورج چمکنے سےپہلے ذبح نہیں کئے جاتے۔'' مولانا انعام اللہ صاحب قاسمی لکھتے ہیں: ''اس قول 'یعنی وجہ تسمیہ' کے بموجب ایامِ تشریق کا اطلاق جتنے دنوں پر بھی ہو گا اس |