کا تعلق ذبیحہ اور قربانی سے ہو گا۔ کیونکہ کوئی ایسا دن جس میں قربانی جائز نہ ہو تشریق کا دن نہیں کہا جا سکتا لہٰذا جب یوم النحر کے بعد تین دنوں کو باجماعِ اُمت تشریق کہا گیا ہے تو قربانی بھی یوم النحر کے بعد تین دنوں تک جائز ہو گی۔''[1] چار دن قربانی سے متعلق اقوال تابعین تابعین میں سے درج ذیل جلیل القدر تابعین چار دن قربانی کے قائل تھے: امام اہل مکہ عطا بن رباح رحمۃ اللہ علیہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وكما قد حدثنا محمد بن خزيمة، قال: حدثنا حجاج، قال: حدثنا حماد، عن مطر الوراق أن الحسن وعطاء قالا: يضحي إلى آخر أيام التشريق[2] ''امام حسن اور امام عطا رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ قربانی ایام تشرق کے آخری دن تک یعنی عیدسے لے کر چار دن تک ہے۔'' امام اہل بصرہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ امام ابو عبد اللہ المحاملی(م 330ھ) نے کہا: حدثنا محمود، حدثنا هشيم، حدثنا يونس، عن الحسن أنه كان يقول: يضحي أيام التشريق كلها[3] ''حسن بصری رحمۃاللہ علیہ کہتے تھے کہ تشریق کے تمام دنوں میں یعنی عید الاضحیٰ سمیت چار دنوں: 10، 11،، 12، 13 میں قربانی کی جائے۔'' امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ (م 458ھ) فرماتے ہیں: |