Maktaba Wahhabi

44 - 111
یا (زمین کے اندر) گھسنے کی جگہ مل جائے تو اسی طرح رسیاں تڑاتے ہوئے بھاگ جائیں۔ اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ(تقسیم) صدقات میں آپ پر طعنہ زنی کرتے ہیں اگر ان کو اس میں سے (خاطر خواہ حصہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہو جائیں۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیمِ غنائم و صدقات میں ’لمز و طعن‘ اور عیب جوئی و نکتہ چینی کرنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر منصف باور کروانے والے شخص کو بھی مسلمانوں کی جماعت سے خارج قرار دیا ہے جیسے کہ پہلے قسمیں کھانے والے منافقین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے لوگوں سے خارج قرار دیا ہے۔ لمز و طعن والی یہ آیت اگرچہ بعض خاص لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مالِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کہ بنی تمیم کے ایک شخص ذو الخویصرۃ نے کہا: یَا رَسُوْلَ الله ! اِعْدِل ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !عدل و انصاف کریں۔‘‘اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَیْلَكَ، وَ مَنْ یَّعْدِلُ اِذَا لَمْ أَعْدَلْ؟ قَدْ خِبْتُ وَ خَسِرْتُ اِنْ لَّمْ أَکُنْ أَعْدَلْ)) [1] ’’ افسوس ہے تجھ پر، اگر میں نے بھی انصاف نہ کیا تو پھر اور کون کرے گا؟ اگر میں نے انصاف نہ کیا تو میں خائب و خاسر اور نقصان اُٹھانے والا ہو گیا۔‘‘ اسی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس گستاخ کی گردن اُڑادوں۔‘‘ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جانے دو۔‘‘ ساتھ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی جماعت کی نشانیاں بتائیں کہ اس کی نسل سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ ٭ تم اپنی نماز ان کی نماز کے سامنے حقیر و معمولی سمجھوگے۔ ٭ تم اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں حقیر و معمولی محسوس کروگے۔
Flag Counter