لکھتا ہے: ’’لیکن خود فلم کے بارے میں کیاکہا جائے؟ غیر پیشہ وارانہ فلم کاری کااتنا پھٹیچیچر نمونہ ایسا شعلہ جوالہ کیوں بن گیا؟ یہ فلم ایک ایسے وقت میں تیارکی گئی ہے جب کہ یورپ اور امریکہ میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں نےایک ایسا اسلام دشمن نظریہ اپنالیاہے جو تقریباً بالکل ٹھیک روایتی’ یہود مخالف کلیدی طریقوں‘ کو دہراتا ہے۔‘‘ مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بنائی جانے والی گستاخی پر مبنی فلم اسلام دشمن ابلاغی منصوبہ کا حصہ ہے۔ یہود کی سرپرستی اور امریکی حکومت کی اس فلم کے ذمہ داران کے بارے خاموشی بھی اُنہیں اس منصوبہ بندی میں شریک کر رہی ہے۔پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے زبردست احتجاج اور رد عمل کے باوجود امریکی ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ وہ مغربی اقوام جو بات بات پر ’سوری‘ کہنے کی عادی ہے، ان کی زبان سے اس فلم کے بارے میں معذرت کا کوئی لفظ برآمد نہیں ہورہا تواسے ان اقوام کے اسلام کے خلاف اجتماعی بغض اور ظالمانہ تائید کے علاوہ اور کیا سمجھا جائے؟ یہ فلم مسلسل یوٹیوب پر جاری ہے اور اسے تاحال ہٹایا نہیں گیا۔ اگرچہ اوباما حکومت اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ قرار دیتی ہے لیکن عملی طور پر فلم کے ذمہ داران کے بارے مجرمانہ خاموشی اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جاری اس ابلاغی جنگ کا ہی حصہ قرار پاتی ہے جسے امریکہ کی قیادت میں عالم کفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ پوری دنیا کے کفر کو یہ بات شاید ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی کہ ایک ادنیٰ مسلمان بھی حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان تک قربان کرنے کو ہر وقت تیار رہتا ہے، کیونکہ ایک مسلمان کے نزدیک اس کی زندگی اور ایمان کا کل اثاثہ توحید کے بعد یہی حب رسول ہے کہ جس کا ولولہ لیے وہ دنیا میں جی رہا ہوتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ماضی میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کفار کی طرف سے کیے گئے رکیک حملے صہیونی اور عیسائی طاقتوں کے ایما پر ہی تھے۔ سلمان رشدی کی ہفوات سے لے کر توہین آمیز کارٹون کی اشاعت تک کا سلسلہ مسلمانوں کے لئے تکلیف دہ اور ان کی روحوں کو تڑپا دینے والا اقدام تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلمان ممالک ناموسِ رسالت کے دفاع میں کم ازکم |