القول الحق،عون المعبود شرح سنن ابی داؤد، التعلیق المغنی علی کتاب سنن الدارقطنی،اعلام اہل العصر فی احکام رکعتی الفجر،المکتوب اللطیف الی المحدث الشریف ،غنیۃ اورجوابات الزامات، الدارقطنی علی الصحیحین زیادہ معروف ہیں۔ [1] آپ نے19 ربیع الاوّل ۱۳۲۹ھ/۲۱ مارچ ۱۹۱۱ء کو وفات پائی۔ [2] آپ تدریس وتصنیف کے علاوہ فتویٰ بھی دیا کرتے تھے۔ آ پ کی وفات کے بعدآپ کے فتاویٰ کو ’فتاویٰ‘ کے نام سے محمد عزیر نے مرتب کیا ہے۔ یہ مجموعہ ۵۰ فتاویٰ اور ۴۶۶ صفحات پر محیط ہے۔اس میں مولانا کے تین عربی فتوؤں کے مختصر اُردو ترجمے بھی شامل ہیں۔ اصل فارسی فتووں کی اِشاعت کے ساتھ انکے مختصر اردو ترجمے بھی اسمیں شامل ہیں ۔ مولانا نے اپنے فتاویٰ کے اَندر بہت تحقیق و تفصیل بیان کی ہے۔ پہلے احادیث ذکر کی ہیں اور پھر ان پر محدثانہ اَنداز میں کلام کیا ہے۔ صحیح اور ضعیف اَحادیث کی نشان دہی بھی کی ہے۔ ناقدین حدیث اور علماے جرح وتعدیل کے اَقوال نقل کر کے سند اور متن کی چھان بین کی ہے نیز ہر مسئلہ سے متعلق فقہاے مذاہبِ اَربعہ اور سلف صالحین کے اَقوال و آراء کا جائزہ لیا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ دلائل کا موازنہ بھی کیا اور صحیح اور راجح قول کی طرف اِشارہ کیا ہے۔ ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ مولانا نے کوئی بات بلا سند نہیں کی اور نہ ہی کوئی قول کسی کی طرف بغیر حوالے کے منسوب کیا ہے۔ مولانا نے ہر فن کی مستند کتابوں سے مطلوبہ مواد لیا ہے نیز کسی حدیث کی تحقیق کرنی ہو تو بڑے بڑے محدثین اور علماے جرح و تعدیل کے اَقوال سے استشہاد کرتے ہیں۔ مولانا عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا اسلوب یہ ہے کہ ہر موضوع پر بحث و تحقیق سے فتویٰ تحریر کرتے ہیں اور کہیں پر بھی سرسری جواب پر اکتفا نہیں کرتے۔ یوں تو انکے تمام فتاویٰ بسیط محقق ہیں، لیکن اس مجموعہ میں چند فتاویٰ جات پر بسط و تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔جن میں عیدین کی نماز کے بعد مصافحہ و معانقہ(ص۱۱۶تا۱۲۶)، دیہات میں جمعہ کی فرضیت کا حکم (ص۲۰۷تا۲۳۲)، آمین بالجہر(ص۲۳۳تا۲۹۹)، تعزیہ داری (ص۱۸۶تا۲۰۶) جانوروں کو خصی |