Maktaba Wahhabi

82 - 111
فقہ واجتہاد پروفیسرڈاکٹرعبدالروٴف ظفر [1] اہل حدیث اور فتویٰ نویسی؛ ایک تاریخی جائزہ قيام پاکستان سے قبل اہلحدیث مجموعہ ہائے فتاویٰ کا تعارف فتویٰ کامفہوم لغوی اعتبار سے فتویٰ اسم مصدر ہے جو’افتاء‘ کے معنی میں مستعمل ہے اور اس کی جمع فتاوٰی (بفتح الواو) اور فتاوِی(بکسر الواو) آتی ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَسْتَفْتُوْنَكَ۠1 قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَةِ1﴾ [2] ’’لوگ آپ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں۔ فرمادیجئے ! اللہ تمہیں کلالہ کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔‘‘ بعض علماے لغت کے نزدیک یہ ’الفتوة‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کرم، سخاوت، مروت اور زور آوری ہیں۔ فتویٰ کو بھی فتویٰ اس لیے کہتے ہیں کہ فتویٰ دینے والا مفتی اپنی فتوت یعنی سخاوت و مروت اور عالمانہ قوت سے کام لیتے ہوئے کسی دینی مسئلہ کا حل پیش کرتا ہےیا فتویٰ کے ذریعے مسلم معاشرے میں دین کو استحکام اور تحفظ دیا جاتاہے۔ علامہ ابن منظور افتاء اور فتویٰ کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "والفتیا تبیین المشکل من الأحکام، أصله من الفتی وهو الشاب الحدث الذي شب وقوی، فکأنه یقوي ما أشکل بیانه فیشب ویصیر فتیا قویا"[3] ’’فتویٰ کے معنی ہیں مشکل احکام کو واضح کرنا، اس کی اصل فتیٰ سے ہے: وہ نوجوان جو طاقتور ہو گویا مفتی،فتویٰ کواپنے بیان کے ذریعہ سے مضبوط اور قوی بناتا ہے۔‘‘ علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے :
Flag Counter