نہاں خانۂ دل پروفیسر مسز ثریا علوی[1] قرآن جلتا رہا اور قوم کرکٹ کھیلتی رہی! قرآن پاک کو نذرِ آتش کرنے کی ناپاک جسارت اور قوم کا رویہ بارِ الٰہ! یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ مسلمان اس قدر مجبور و لا چار بنا کے رکھ دئیے جائیں گے یا خود ہی اس قدر بے حس ہو جائیں گے۔ ڈیڑھ ارب مسلمان دنیا میں موجود ہوں اور ایسے ایسے واقعات پیش آئیں کہ دل کی دھڑکن بند ہوتی محسوس ہو۔ یہ تیسری ہزاری کیا شروع ہوئی ہے کہ یکے بعد دیگرے فتنے اور بلائیں نازل ہوتی جا رہی ہیں کہ غالب کے الفاظ میں: حیران ہوں روؤں دل کو، کہ پیٹوں جگر کو میں ۱۹۹۸ء، ۱۹۹۹ء میں دنیا بھر میں اک شور برپا تھا کہ اب ہم تیسری ہزاری میں داخل ہو رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کا استقبال ہم کس طرح کریں گے؟ دنیا کی تمام قومیں اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے لیے اپنے اپنے انداز میں تیاریاں کر رہی تھیں۔ مگر کیا معلوم تھا کہ ان تیاریوں کا مقصد دراصل اسلام اور اہلِ اسلام کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنا تھا۔ چنانچہ یہ اکیسویں صدی اپنے پہلے سال ہی سے مسلمانوں کے لیے انتہائی خون آشام ثابت ہوئی ہے۔ پے در پے حادثے اور ان حادثوں میں اہلِ اسلام کے لیے اتنی ذہنی و جسمانی اذیتیں پنہاں ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ عقل حیران ہے کہ کس کس کا ماتم کرے! 1. مسلمانوں ملکوں کو ویزے اور پاسپورٹوں کے چکروں میں ڈال کر ایک دوسرے سے بے انتہا دور کر دیا گیا ہے تا کہ ان کے مالی وسائل پر امریکہ کا قبضہ رہے۔ ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی پالیسیاں سب کچھ امریکی احکام کی روشنی میں ان کی منشا کے مطابق طے پاتی رہیں۔ اب تمام مسلمان ممالک اللہ اور رسول کی بجائے اپنے آپ کو یواین او اور امریکہ کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہیں۔ |