سے کہا: یا أبا عبدالرحمٰن! ما تقول فیمن یزني ویشرب الخمر ونحو هذا أمؤمن هو؟ قال ابن المبارك: لا أخرجه من الإیمان فقال: علىٰ کبر سن صرت مرجئًا. فقال له ابن المبارك: أن المرجئة لا تقبلني، أنا أقول: الإیمان یزید والمرجئة لا تقول ذلك والمرجئة تقول حسناتنا متقبلة وأنا لا أعلم تقبلت منی حسنة؟ وما أحوجك إلى أن تأخذ سبورة فتجالس العلماء [1] ’’اے ابوعبدالرحمٰن (یعنی عبداللہ بن مبارک) آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو زنا کرتا، شراب پیتا اور اس طرح کے کام کرتا ہے، کیا وہ مؤمن ہے؟ تو عبداللہ بن مبارک نے جواب دیا کہ میں اسے ایمان سے خارج نہیں کرتا ۔ تو اس نے کہا کہ آپ بڑھاپے کی حالت میں مرجئہ ہوگئے ہیں؟ تو عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ بلا شبہ مرجئہ مجھے قبول نہیں کریں گے (یعنی میرا کسی صورت بھی مرجئہ میں شمار نہیں ہوسکتا) کیونکہ میں کہتا ہوں کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے جبکہ مرجئہ اس کے قائل نہیں ہیں۔ مرجئہ کہتے ہیں کہ ہماری نیکیاں (قطعی طور پر) قبول کا درجہ پانے والی ہیں جبکہ میں نہیں جانتا کہ میری نیکی قبول ہوئی(یا کہ نہیں) ۔تو (اس بات کا) کس قدر محتاج ہے کہ ڈسٹر پکڑ کر علما کی مجلس میں بیٹھے۔‘‘ نوٹ: اس مضمون كی پہلی قسط ’اہل السنۃ اور مرجئہ کون؟(مطبوعہ محدث جنوری 2012ء) کے صفحہ نمبر23 پر (اثر جندب رضی اللہ عنہ ) كا حوالہ غلط چھپ گیا ہے،صحيح حوالہ یوں ہے: شرح اُصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ: 2/ 49، الایمان لابن تیمیہ: ص 178، السنۃ لابن احمد : الرقم 799۔ مزید برآں حاشیہ نمبر 4، اثر عبد العزیز بن عمر رحمۃ اللہ علیہ کو بھی یوں پڑھا جائے:صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم بُنی الاسلام علی خمس ،تعلیقًا، شرح السنۃ از بغوی: 1/ 79، ابن ابی شیبۃ:رقم 30435 |